Saturday, November 30, 2019

If Impeached, It Will Be Consider as President Bush’s Attack On Iraq On Fabricated Narratives About A Weapon’s of Mass Destruction



   If Impeached, It Will Be Consider as President Bush’s Attack On Iraq On Fabricated Narratives About A Weapon’s of Mass Destruction
Quid pro quo is the first pillar of American foreign policy. During the Cold War, in the third-world dictators worked for America’s interest and they had been paid in the form of economic aid, for which they had pocketed. America had ignored their brutality and corruptions, as long as they were America’s allies
مجیب خان
Impeachment Proceeding before the House Intelligence Committee, Nov15, 2019

 "!President Donald Trump on impeachment "If this were a prizefight they'd stop it 




   بش انتظامیہ کے 8سال ملا عمر کی تحریک طالبان کا خاتمہ کرنے، ا سا مہ بن لادن کو پکڑنے اور صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی عراق جنگ میں گزر ے تھے۔ پھر صدر بش نے امریکہ کو جہاں چھوڑا تھا۔ برا ک اوبامہ نے اپنی صدارت کا آغاز وہاں سے کیا تھا۔ صدر اوبامہ کے 8 سال پہلے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں  پاکستان سے  ‘Do more’کرنے، حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ کرنے اور پھر ‘Assad has to go’ کرنے اور ISIS سے لڑنے میں گزر گیے تھے۔ 18سال میں دو انتظامیہ نہ تو طالبان کا خاتمہ کر سکی تھیں۔ نہ ہی القا عدہ کا خاتمہ ہوا تھا۔ بلکہ ایک نئی تنظیم ISIS کا ایڈیشن ہو گیا تھا۔ صدر ٹرمپ کو پہلے دو سال Russian Meddling   میں مصروف رکھا تھا۔ اور یہ بحث ہوتی رہی کہ 2016 کے انتخابات میں روس نے مداخلت کی تھی۔ لیکن یہ واضح نہیں ہو سکا تھا کہ مداخلت ڈالروں سے کی تھی یا فراڈ ووٹوں سے ہوئی تھی۔ اور جب صدر ٹرمپ Russian Meddling سے آزاد ہوۓ تو انہیں اب Quid pro quo کیس نے گھیر لیا ہے۔ جس کی سزا Impeach ہے۔ صدر ٹرمپ کو Impeach کرنا اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے Ukraine کی $400 ملین ڈالر امداد روک لی تھی۔ اور Ukraine حکومت سے پہلے کرپشن کی تحقیقات کرنے کا کہا تھا۔ جس میں سابق نائب صدر Joseph Biden کے صاحبزادے Hunter Biden کا نام Ukraine کے ساتھ ریڈار پر آ گیا تھا۔ اور اس میں کسی کی دو راۓ نہیں تھیں کہ Ukraine ایک انتہائی Corrupt  ملک ھے۔ Hunter Biden کے بارے میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ وہ Ukraine کی ایک ا نر جی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن تھے۔ اور کمپنی انہیں 50ہزار ڈالر ماہانہ دیتی تھی۔ اس کے ساتھ یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ Joseph Biden جب نائب صدر تھے انہوں نے Ukraine کے 6دورے کیے تھے۔ جو بھی یہ سنتا اس کے ذہین میں پہلا لفظ ‘Corruption’ آتا۔ صدر ٹرمپ نے یہ سن کر Ukraine کی امداد روک لی اور Ukraine کے نو منتخب صدر Volodymyr Zelensky سے فون پر اس کی تحقیقات کرنے کا اصرار کیا۔ صدر ٹرمپ اس کی تحقیقات کرانے کے Obligated تھے۔ جب بھی کسی شخص بالخصوص کسی اہم سیاسی شخصیت کا نام غلط کاموں میں ایف بی آئی، سی آئی اے یا کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ریڈار پر آ جاتا ہے تو وہ اس کی تحقیقات کرنے کے لیے Obligated ہو جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے مینجر Paul Manafort  کے بارے میں Russian Meddling تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا تھا کہ وہ Ukraine حکومت کے لیے کام کر رہے تھے۔ اور انہوں نے لاکھوں ڈالر کی Money Laundering کی تھی۔ انہیں 30سال کی سزا ہوئی ہے اور وہ جیل میں ہیں۔ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم ٹیم کے متعدد افراد مختلف نوعیت کے کرپشن کے الزامات میں ملوث پاۓ گیے تھے۔ اور انہیں سزائیں ہوئی ہیں۔ لہذا اس پس منظر میں صدر ٹرمپ کی  Ukraine میں Joseph Biden اور Hunter Biden کی سرگرمیوں کی تحقیقات میں دلچسپی زیادہ تھی۔  لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں تھا کہ صدر ٹرمپ Ukraine حکومت سے Joseph Biden پر جو ڈیمو کریٹک پارٹی کے یقینی صدارتی امیدوار ہیں۔ ان پر Dirt پھنکوانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ Dirt ریت کا ایک ذرہ ہوتی۔ کیونکہ Mr. Biden کے خلاف اصل Dirt اوبامہ انتظامیہ میں ان کے 8سال اور اس سے قبل 40سال سینٹ میں ان کے رول سے آۓ گی۔ یہ کہنا غلط ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے ایک شہری کی غیرملکی حکومت سے تحقیقات کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ جب شہری اس ملک میں کوئی غلط کام کر رہا ہو گا تو بلاشبہ اس ملک کی حکومت سے اس کی تحقیقات کرنے کا کہا جاۓ گا۔ اگر Iran-Contra سکینڈل کا واٹر گیٹ سکینڈل سے کوئی موازنہ نہیں تھا۔ تو Ukraine کی امداد روکنے کا واٹر گیٹ سکینڈل سے بھی کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
  Quid pro quo امریکہ کی خارجہ اور سیکیورٹی پالیسی کا ایک پہلا ستون ہے۔ دنیا بھر میں تمام مہم جوئیاں Quid pro quo کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ سرد جنگ میں ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں فوجی ڈکٹیٹر ز امریکہ کی Quid pro quo پالیسی کے تحت اقتدار پر قبضہ کرتے تھے۔ امریکہ انہیں کھربوں ڈالر امداد دیتا تھا۔ اور یہ ڈکٹیٹر ز امریکہ کے مفاد میں کام کرتے تھے۔ امریکہ سے مالی امداد وصول کرتے اور کرپشن کرتے تھے۔ اپنے عوام پر ظلم کرتے تھے۔ انہیں اذیتیں دیتے تھے۔ آزادی اظہار پر تالے ڈال دیتے تھے۔ لیکن امریکہ نے ڈکٹیٹروں کے اس رول سے بالکل منہ موڑ لیا تھا۔ کیونکہ یہ امریکہ کے مفادات کی تکمیل کرتے تھے۔ ان ڈکٹیٹروں کے عوام انہیں Impeach بھی نہیں کر سکتے تھے۔  صدر ٹرمپ کو اب اس لیے Impeach کیا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے Ukraine  کی امداد کیوں روکی تھی۔ Ukraine  امریکہ کا ایک اہم قریبی اتحادی ہے۔ جو روس کے خلاف کھڑا ہے۔ اس کے ہزاروں فوجی اس جنگ میں اپنی جانیں دے چکے ہیں۔ لہذا ایسی صورت میں ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو Ukraine میں کرپشن کو نظر انداز کر دینا چاہیے تھا۔ اور امداد نہیں روکنا چاہیے تھی۔
  9/11 کے بعد صدر جارج ڈبلو بش نے پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کو لاکھوں ڈالر امداد کی پیشکش ان شرائط پر کی تھی کہ اگر پاکستان طالبان سے تعلقات ختم کر دے اور انہیں اقتدار سے ہٹانے میں امریکہ کی مدد کرے۔ پھر امریکہ پاکستان کی اقتصادی ترقی اور انویسٹمنٹ میں بھی مدد کرے گا۔ اور Quid pro quo  کی بنیاد پر امریکہ-پاکستان نئے تعلقات کا آغاز ہوا تھا۔ پاکستان نے اپنی افغان پالیسی میں 380 ڈگری سے U ٹرن لیا تھا۔ طالبان کے خلاف صدر بش کی جنگ میں مدد کی تھی۔ لیکن صدر جنرل مشرف نے صدر بش کی عراق کے خلاف جنگ کی حمایت نہیں کی تھی۔ اور نہ ہی امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پاکستان جنگ بنایا تھا۔ پھر جب صدر جنرل مشرف کا اقتدار غیر یقینی ہوتا نظر آنے لگا تو بش انتظامیہ نے پاکستان کی داخلی سیاست میں Meddling کی اور کر پٹ لیڈروں کا جن کے کرپشن کے کیس عدالتوں میں تھے۔ صدر جنرل مشرف حکومت سے ان کا سمجھوتہ کرایا، ان کے مقدمے ختم کراۓ، ان کے منجمد فنڈ ز بحال کر آۓ اور انہیں معافی دلوائی۔ اور یہ کر پٹ لیڈر آصف علی زر داری اور میاں نواز شریف تھے۔ امریکہ میں کسی سینیٹر یا کانگریس مین کے خلاف کرپشن کے کیس صدر بش اس طرح ختم نہیں کروا سکتے تھے۔ لیکن پاکستان میں یہ امریکہ کے Quid pro quo نے ممکن بنایا تھا۔ بش انتظامیہ نے سیاسی لیڈروں کا  صدر جنرل مشرف سے سمجھوتہ کرایا تھا۔ اور خود ان لیڈروں سے عہد نا مہ لیا تھا کہ وہ دہشت گردی کی جنگ کو پاکستان کی جنگ بنائیں گے۔ اور پھر اس جنگ کو جاری رکھیں گے۔ 2009 میں سینٹ نے پاکستان کے لیے 100بلین ڈالر امداد 10سال تک دینے کا بل منظور کیا تھا۔ لیکن پھر اوبامہ انتظامیہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سے Do More کے مطالبے بڑھ گیے تھے۔ اوبامہ انتظامیہ نے پاکستان کی امداد روک دی تھی۔ پاکستان کو 10سال میں جو 100بلین ڈالر امداد دینے کا کہا گیا تھا۔ زر داری حکومت کے پانچ سال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا 100بلین ڈالر کا نقصان ہو گیا تھا۔ اس خبر کے بعد اوبامہ انتظامیہ نے پاکستان کی امداد بند کر دی تھی۔ یہ Quid pro quo کی ایک عبرتناک مثال تھی۔
  امریکہ کی تاریخ میں جارج ڈبلو بش انتظامیہ میں سب سے زیادہ آئین اور قانون کی خلاف ورزیاں ہوئی تھیں۔ کبھی ایسا نظر آتا تھا کہ جیسے آئین Suspend ہو گیا تھا۔ Patriot Act امریکہ کا نیا آئین بن گیا تھا۔ عراق کے بارے میں امریکی عوام سے جھوٹ بولا گیا تھا۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں دنیا کو جھوٹے ثبوت دکھاۓ گیے تھے۔ کمیونسٹ ملکوں میں جس طرح جیلوں میں اذیتیں دی جاتی تھیں۔ 9/11 کے بعد جیلوں میں اذیتیں دینے کا وہ نظام امریکہ میں آ گیا تھا۔ امریکہ کے جمہوری اور اعلی اخلاقی قدروں میں اذیتیں دینے کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ دہشت گردی کے الزام میں کتنے قیدی جیلوں میں اذیتوں کے دوران مر گیے تھے۔ بے شمار قیدیوں کو Guantanamo Bay میں بغیر کسی عدالتی کاروائی کے دس، بارہ سال نظر بند رکھا تھا۔ اور پھر انہیں یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ ان کا القا عدہ اور طالبان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یورپ کے شہروں سے القا عدہ کے الزام میں لوگوں کو اس طرح اغوا کیا گیا تھا کہ جیسے عرب ڈکٹیٹروں کی خفیہ ایجنسی اپنے مخالفین کو اغوا یا قتل کر تی تھی۔ یا اسرائیلی مو ساد  یہ کام کرتی تھی۔ پھر عراق سے جب مہلک ہتھیار نہیں ملے۔ تو بش انتظامیہ نے یہ الزام اپنے انٹیلی جینس اداروں کو دے دیا کہ انہوں نے یہ رپورٹیں حکومت کو دی تھیں۔ ہزاروں بے گناہ انسانوں کی زندگیاں تباہ ہو گئی تھیں۔ کئی ہزار امریکی فوجی جنہوں نے اس دنیا میں خوبصورتی کو ابھی پوری طرح دیکھا بھی نہیں تھا وہ اس بے مقصد جنگ میں مارے گیے تھے۔ 30ہزار امریکی فوجی اب اس جنگ کے زخموں کے ساتھ زندہ ہیں۔ لیکن کانگرس اس پر Impeach کر رہی ہے کہ صدر ٹرمپ نے Ukraine کی امداد کیوں روکی تھی۔ لیکن جارج بش، ڈک چینی، قومی سلامتی ٹیم اور انٹیلی جینس حکام کی کوئی Accountability  نہیں ہوئی تھی۔ امریکہ کی ساکھ اس وقت سے گرتی جا رہی ہے۔ اس گرتی ساکھ کو اوبامہ انتظامیہ نے بھی بحال نہیں کیا تھا۔ Whistleblower, Edward Snowden نے بھی امریکی عوام کو کچھ خفیہ معلومات دی تھیں کہ ان کی آزادی، حقوق، اور امریکہ کی عالمی ساکھ کو ان کی حکومت کس طرح نقصان پہنچا رہی تھی۔ لیکن کانگرس اور حکومت نے اس Whistleblower کو غدار قرار دے دیا تھا۔ اور اپنا معمول کا کاروبار جاری رکھا تھا۔    

No comments:

Post a Comment