Thursday, November 7, 2019

Pakistan: Is Maulana becoming A New Leader Of The Taliban? What Maulana Is Doing Is Vandalism



   Pakistan: Is Maulana becoming A New Leader Of The Taliban? What Maulana Is Doing Is Vandalism
مجیب خان

Maulana Fazl Ur Rehman, Leader of so-called Azadi March, in Islamabad



   مولانا فضل الرحمان کیا قوم کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہو گیے ہیں؟ پاکستان میں سب انہیں 'آزادی مارچ' کی کامیابی پر مبارک با دیں دے رہے ہیں۔ گزشتہ انتخاب میں جن انتخابی حلقوں کے لوگوں نے انہیں مستر د کیا تھا۔ اور انہیں سیاسی Junk کر دیا تھا۔ لیکن کراچی سے اسلام آباد 'آزادی مارچ' نے مولانا کو جیسے پاکستان کی سیاست کا ایک Most Valuable Player (MVP) بنا دیا ہے۔ پاکستان میں سیاست کے بڑے بڑے Wheeler Dealers مولانا کے دربار میں کھڑے ہیں۔ پاکستان میں میڈ یا انہیں وزیر اعظم تسلیم کرنے لیے جیسے ایک انچ پیچھے ہے۔ مولانا اسٹیج پر کھڑے ہیں۔ ان کے ایک ہاتھ پر درمیانی عمر کا شہباز شریف تھے۔ دوسرے ہاتھ پر 30 کی درمیانی عمر کا بلا و ل زر داری ( یہاں نام کے ساتھ بھٹو لکھنا بھٹو کی سیاست کا معیار گرانا ہو گا) تھے۔ مولانا کے سامنے لوگوں کا سیلاب تھا اور اس سیلاب کی موجیں مولانا کے چہرے پر تھیں۔ پاکستان میں یہ جمہوریت ہے۔ اس جمہوریت کی روایت ان کے باپ نے 40سال پہلے ر کھی تھی۔ اور وہ آئین اور حکومت Derail کر کے اور پاکستان کے عوام کو اذیتیں دے کر گیے ہیں۔ مولانا کا آزادی مارچ آزادی کے نام پر ایک بڑا Fraud ہے۔ کہتے ہیں کہ جیسے لوگ ہوتے ہیں اللہ انہیں ویسے ہی لیڈر دیتا ہے۔ اسلام آباد میں مولانا آزادی مارچ کے لشکر سے 100فیصد آزادی کی زبان میں نہیں بول  رہے تھے۔ دہشت پسندانہ لہجہ میں خوف و ہراس پھیلانے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ لوگوں کو وزیر اعظم ہاؤس پر حملہ کرنے اور وزیر اعظم کو گھسیٹ کر باہر نکالنے کی شہ دے رہے تھے۔ ایک اسلامی معاشرے میں نفرت پھیلا رہے تھے۔ مولانا نے ان کے مطالبے پورے کرنے کے لیے 48 گھنٹے دئیے تھے۔ ورنہ لوگوں کے اس سیلاب کو پھر  کوئی نہیں روک سکے گا۔ اور یہ سیلاب وزیر اعظم ہاؤس کی طرف جاۓ گا۔ مولانا کا یہ لہجہ ایسا تھا کہ جیسے علاقہ کا غنڈہ کسی تاجر کو یہ دھمکی دیتا ہے کہ اگر 48 گھنٹے میں اپنے خزانے کی چابیاں ہمارے حوالے نہیں کی تو ہم تمہارے بچوں کو اغوا کرنے آ رہے ہیں۔ چھوڑیں پاکستان کے میڈیا کو لوگ ذرا بتائیں کیا یہ آزادی نہیں تھی کہ جس طرح مولانا، بلا و ل اور شہباز تقریریں کر رہے تھے۔ کیا مولانا اس طرح خانہ کعبہ کے امام کے ساتھ سعودی عرب میں ایسی باتیں کر سکتے ہیں۔ مولانا کو کیا سعودی عرب اور پاکستان ایک ہی طرح کے معاشرے نظر آتے ہیں۔ مولانا کو آزادی اور جمہوریت صرف اس وقت یاد آتی ہے جب وہ الیکشن ہار جاتے ہیں اور ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہوتا ہے۔ یہ  Characterless  ہونے کی علامت ہے۔ جن کے مزاج میں جمہوریت ہوتی ہے۔ ان کے Behavior میں مودبانہ تہذیب ہوتی ہے۔ شکست قبول کرتے ہیں اور جیتنے والے کو کھلے دل سے مبارک باد دیتے ہیں۔ جیسے کھیل کے میدان میں ایک ٹیم ہار جاتی اور دوسری ٹیم جیت جاتی ہیں۔ ہارنے والی ٹیم جیتنے والی ٹیم کو گلے لگاتی ہے اور اسے مبارک باد دیتی ہے۔ کیونکہ یہ  کھیل کے میدان میں پھر ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔ جمہوری سیاست بھی کھیل کے میدان کی طرح ہوتی ہے ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ لیکن پاکستان میں جمہوریت کی آ ڑ میں فاشسٹ ہیں۔ جب سے یہ الیکشن ہارے ہیں ان کی آنکھوں میں خون ہے۔ نفرت اور انتقام ان کے  چہروں پر ہے۔ جیسے غنڈے ہمسایہ میں شریفوں کا  جینا اجیرن کر دیتے ہیں۔ وزیر اعظم کو Selected Prime Minister کہنے سے وزیر اعظم کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہو گا لیکن یہ کہنے والوں کی ذہنی صحت کا پتہ چلتا ہے یہ کتنے بیمار ذہنیت کے ہیں کہ عوام کی توہین کر کے خوش ہوتے ہیں۔ دنیا ان کی باتیں سن کر سر کھجا رہی ہے۔
  مولانا فضل الرحمان کو صرف پاکستان یا بھارت میں میڈیا نے اہمیت دی ہے۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ عالمی میڈیا میں ان کے آزادی مارچ کو کوئی کوریج نہیں ملا ہے۔ اسے صرف خبر کی حد تک دیا گیا تھا۔ مولانا کو اس تشویش سے دیکھا جا رہا تھا کہ یہ کیا Resurgence of Taliban ہو رہا ہے؟ مولانا آخر کس مشن پر ہیں؟ 6نومبر کو مولانا نے اپنا خطاب ‍‍قرآن کی تلاوت سے کیا تھا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ اس مرتبہ طالبان اسٹیج پر مولانا کے پیچھے کھڑے تھے۔ مولانا کے لہجے میں فرعونیت تھی۔ یہ ان کا تیسرا خطاب تھا۔ پہلے خطاب میں مولانا نے آیت اللہ خمینی بننے کی کوشش کی تھی۔ پھر دوسرے خطاب میں مولانا نے غریبوں کسانوں اور مزدوروں کی بات کی تھی۔ غریب مزدور اور کسان کے لفظ پہلی مرتبہ ان کی زبان پر آۓ تھے شاید مولانا فیڈ ل کا سترو اور Che Guevara بننا چاہتے تھے۔ تاکہ اس طرح مولانا Pro- Taliban   تاثر میں توازن رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ Maulana Talks are Cheap’   عوام کو صرف یہ دکھائیں کہ جب آپ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی تھے۔ آپ نے کتنے بچوں کو جو پشاور چوک پر روزانہ جوتوں پر پالش کر کے اپنے بہن بھائیوں اور ماں باپ کی مدد کرتے تھے۔ انہیں وہاں سے اٹھا کر اسکول اور کالج بھیجا تھا۔ اور کیا مولانا فخر سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج وہ اعلی عہدوں پر ہیں۔ مولانا عوام کے سامنے اپنا Public Service Record پیش کریں۔ 40سال میں پاکستان میں لیڈروں نے لوگوں کو غربت دی ہے۔ 40سال میں چین میں لیڈروں نے پاکستان کی آبادی سے تین گنا کو غربت سے نکالا ہے۔ ان 40 سالوں میں پاکستان کے لیڈروں کی Wealth اور Assets میں اضافہ آسمان پر پہنچ گیے ہیں۔ لیکن عوام زمین میں دھنستے جا رہے ہیں۔
  جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے بعد اقتدار میں کون آۓ تھے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آتے تھے۔ یہ کیا کرتے تھے۔ اقتدار میں آتے تھے۔ اور پھر ایک دوسرے کو اقتدار سے ہٹا دیتے تھے۔ فوج کا ادارہ اس وقت کہاں تھا۔ دونوں پارٹیوں نے اداروں کو حدود میں رکھا تھا اور نہ خود کسی حدود میں تھے۔ دونوں نے لوٹ مار کو ایک نیا ادارہ بنا لیا تھا۔ تقریباً ایک دہائی دونوں پارٹیاں لوٹ مار میں ایک دوسرے سے آگے آنے کی سیاست کرتی رہی۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت میں پہلا ادارہ ہوتی ہیں۔ جب  اس ادارے کے لیڈر کر پٹ، نااہل، خود غرض، مفاد پرست، غیر ذمہ دار ہوں گے۔ تو دوسرے ادارے  پھر حدود سے باہر ہو کر ملک کی سلامتی امن اور استحکام کے لیے اپنی ذمہ دار یاں پوری کرنے آ گے آئیں گے۔ زر داری- گیلانی حکومت پاکستان کی تاریخ میں انتہائی بدترین نااہل حکومت تھی۔ جس نے جارج بش کی دہشت گردی کی جنگ پاکستان کے گلے لگائی تھی۔ اس حکومت میں اتنی صلاحیت اور قابلیت نہیں تھی کہ صورت حال کو سیاسی اداروں کے کنٹرول میں رکھتی۔ اور پاکستان کو بش کی دہشت گردی کی جنگ سے دور رکھتی۔ حالانکہ بے نظیر بھٹو مرحومہ نے نیویارک لندن واشنگٹن اور دوبئی میں پریس کانفرنس اور بیان میں یہ کہا تھا کہ دہشت گردی کا حل فوجی نہیں ہے۔ اور ہم اس کا سیاسی حل کریں گے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے دہشت گردی کے مسئلہ کا 'بے نظیر سیاسی حل' بھی ان کے ساتھ دفن کر دیا تھا۔ زر داری- گیلانی حکومت نے دہشت گردی کو پاکستان کی جنگ تسلیم کر لیا اور پھر اس جنگ کا صدر بش کا حل گلے لگا لیا تھا۔ صدر زر داری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اختیارات سے دستبردار ہو گیے تھے۔ اور بش انتظامیہ کے کہنے پر یہ اختیارات جنرل کیانی کو دے دئیے تھے۔ اب پتہ ہے صدر جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو میں صدر بش نے کیا معاہدہ کرایا تھا؟ صدر مشرف صدر ہوں گے اور بے نظیر و زیر اعظم ہوں گی۔ اور یہ مل کر دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے۔ اور صدر زر داری نے اپنے یہ اختیارات جنرل کیانی کو سونپ دئیے تھے۔ اب یہ سیاسی چوزے اداروں کے اختیارات کی بات کرتے ہیں۔ ان سیاسی چوزوں نے دہشت گردی ختم نہیں کی ہے۔ اور امن و امان کے اختیارات فوج کے پاس ہیں۔ کراچی میں لوگوں اور تاجروں نے فوج کا خیر مقدم کیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان کا ایسا خیر مقدم کہیں نہیں ہوا ہے۔ مولانا ‍قرآن کی آتیں پڑھ کر Facts نہیں چھپا سکتے ہیں۔ اللہ اور اللہ کے بندوں کو Facts کا علم ہے۔ مولانا اس لیے اللہ کہتا ہے ہمیشہ سچ بولو۔ اپنے جھوٹ پر میرے ‍قرآن کے پردے مت ڈالو۔
  وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے بھی ایک ایسا ہی Blunder ہوا تھا۔ سرحد اور بلوچستان میں ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی اور بزنجو اور مینگل کی مخلوط حکومت تھیں۔ اور یہ سیاسی Setup  خاصا کامیاب بھی تھا۔ ان حکومتوں میں صوبے کے حالات بھی اچھے تھے۔ پھر سی آئی اے نے وزیر اعظم بھٹو حکومت کو یہ خفیہ رپورٹ دی کہ بلوچستان کی حکومت میں سوویت یونین کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ سوویت یونین یہاں سے خلیج کے گرم پانیوں میں پہنچنے کا راستہ بنا رہا تھا۔ وزیر اعظم بھٹو نے اپنی انٹیلی جنس سے اس سلسلے میں رپورٹ دینے کا کہا۔ پاکستان کی انٹیلی جنس کو شاید ایسے شواہد نہیں ملے تھے۔ امریکہ نے پھر اپنی سی آئی اے کی یہ رپورٹیں شاہ ایران کو دیں۔ شاہ ایران نے اس خفیہ رپورٹ میں اپنی انٹیلی جنس کی رپورٹ بھی شامل کر دی اور وزیر اعظم بھٹو کو یہ دکھائیں کہ کس طرح بلوچستان کی حکومت میں سوویت یونین کے رابطہ بڑھ رہے تھے۔ اور یہ ایران کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن رہا ہے۔ وزیر اعظم بھٹو نے بلوچستان اور سرحد میں حکومتیں ختم کر دیں۔ اور سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور بلوچ لیڈروں کو گرفتار کر لیا۔ اور یہ فوجی آپریشن دراصل وزیر اعظم بھٹو کے زوال کا آغاز تھا۔ اب اگر یہ سیاسی چوزے سیاسی مرغے ہوتے تو شاید اس تاریخ سے کوئی سبق سیکھتے۔ انہیں اداروں کو حدود میں رکھنے کی بکواس بند کرنا چاہیے۔ اور اپنے آپ کو ایک جمہوری نظام میں خامیاں پیدا کرنے کے الزام دینا چاہیے۔ 72سال کی تاریخ میں اپنی سیاست اور Behaviors کا جائزہ لینا چاہیے۔ تاکہ آج جو بچے پیدا ہوں گے، پاکستان جب 100سال کا  ہو گا وہ بچے اس وقت 28سال کے ہوں گے۔ تاکہ ان بچوں کا پاکستان آج کے  پاکستان سے زیادہ خوبصورت ہو جو 40سال قبل مولانا کے باپ ان بچوں کو دے کر گیے ہیں۔ جو اس وقت پیدا ہوۓ تھے۔ جب مولانا کے باپ گھراؤ جلاؤ کی تحریک کے لیڈر تھے۔ اور آج وہ بچے 40سال کے ہیں۔ اور آج وہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ آزادی  مارچ کر رہے ہیں۔ یہ مولانا وہ لوگ ہیں جو نسلوں میں دیمک ہیں۔ عمران خان حکومت مولانا کے مطالبات مان کر مولانا کو نئی سیاسی زندگی مت دیں۔ عوام نے مولانا کو انتخاب میں مستر د کیا ہے۔ اور عوام کے فیصلے کا احترام کیا جاۓ۔ مولانا کے باپ کی تحریک سے سبق سیکھا جاۓ۔ مولانا  اس وقت غنڈہ گردی پر اتر آۓ ہیں۔ ان کی غنڈہ گردی کے دباؤ میں حکومت ختم کر کے نئے انتخاب کرانے کی مثال قائم نہیں کی جاۓ۔ مولانا بھارت کا ایجنٹ ہے۔ اور مودی کو عمران خان بالکل پسند نہیں ہے۔ اس آزادی مارچ کے پیچھے اصل Tussle مودی اور عمران کی ہے۔ مودی نے مولانا کو آگے کر دیا ہے۔ مولانا نے کشمیر کا ز کو اپنے آزادی مارچ سے زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ لہذا مولانا کو کسی صورت میں کامیابی سے نہیں نوازا جاۓ۔ عالمی برادری کی سپورٹ اس وقت عمران خان کو حاصل ہے۔ اگر مولانا نے پھیلنے کی زیادہ کوشش کی تو ان پر بندشیں لگ سکتی ہیں۔           

No comments:

Post a Comment