The End Game of The Lust
of Power And Greed of Wealth
مجیب خان
Former Prime Minister Nawaz Sharif, released on Bail |
Former President Asif Ali Zardari arrested in the fake banks' accounts case |
کشمیریوں کی زندگیاں مودی کے کرفیو نے منجمد کر
دی ہیں۔ اور پاکستان میں قوم میاں نواز شریف کی بیماری اور مولانا فضل الر حمان کی
دھمکیوں کی جیسے قیدی بنی ہوئی ہے۔ قوم کے سامنے صرف یہ دو بڑے موضوع ہیں۔ قوم کے سامنے اور کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ دو
لیڈر وزیر اعظم عمران خان کی Headache ہیں۔ اور ان کی
حکومتیں عوام کے لیے جو مسائل پیدا کر کے گئی ہیں۔ وہ بھی وزیر اعظم عمران خان کے
لیے Headache بنے ہوۓ ہیں۔
سوال اب یہ ہو رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کو علاج کے لیے باہر جانے دیا جاۓ گا یا
نہیں؟ میاں نواز شریف کے رفقا یہ کہتے ہیں کہ اگر میاں صاحب کو کچھ ہو گیا تو اس
کے ذمہ دار وزیر اعظم عمران خان ہوں گے۔ ان کی باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ذہن
کس قدر غیر قانونی سوچ رکھتے ہیں۔ عدالتوں کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی
احترام ہے۔ ان کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ ان کے قائد عدالتوں کے فیصلوں کے
نتیجہ میں قید بھگت رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے حکم پر انہیں جیل میں نہیں
ڈالا گیا ہے۔ حکومت صرف عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرامد کرانے کی پابند ہے۔ وزیر
اعظم عمران خان سپریم کورٹ کے فیصلوں کو Overwrite نہیں کر سکتے ہیں Period ۔ دوسری طرف مولانا فضل الر حمان ہیں جو حکومت کو
اپنے مطالبہ منو ا نے کے لیے بلیک میل کر رہے ہیں۔ مولانا کی ان باتوں سے یہ
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جمہوریت مولانا کے مزاج میں نہیں ہے۔ مولانا کے باپ نے
بیٹے کو جو جمہوریت سکھائی ہے بیٹا بھی اسی راستہ پر چلنے کو جمہوریت سمجھتا ہے۔ سوال
اب یہ ہے کہ مولانا فضل الر حمان اب کہاں
تک اپنی دھمکیوں کو لے جائیں گے؟ مولانا کی دھمکیاں اور مطالبے انتہائی احمقانہ
اور نا معقول ہیں۔ کوئی پیغمبر بھی ان کے یہ مطالبے نہیں مانے گا۔ میاں نواز شریف
اور مولانا فضل الر حمان کی کوئی Credibility ہے اور نہ ہی ان پر اعتماد اور بھر و سہ کیا جا سکتا ہے۔ میاں
نواز شریف اس وقت جن حالات میں ہیں۔ وہ خود انہوں نے پیدا کیے ہیں۔ عمران خان نے
میاں نواز کو ان حالات میں نہیں ڈالا ہے۔ میاں نواز خود اپنی بیماریوں کے ذمہ دار
ہیں۔ اور اب وہ یہ چاہتے ہیں کہ قوم ان کی بیماریوں کا بوجھ بھی اٹھاۓ۔ عدالتوں کے
شکنجہ سے انہیں آزاد کرایا جاۓ۔ میاں نواز شریف اگر ایک Genuine Politician ہوتے تو وہ اپنے لیے ایسے حالات کبھی
پیدا نہیں کرتے۔ اور اگر ان حالات میں وہ آ گیے تھے تو اس سے نکلنے کے لیے ان کے
پاس اتنی عقل، صلاحیت اور قابلیت نہیں تھی۔ میاں نواز شریف سیاست میں ناکام ہوۓ
ہیں۔ اور کرپشن کرنے کے بعد کرپشن کو غلط ثابت کرنے میں بھی میاں نواز شریف ناکام
ہو گیے ہیں۔ یہ ظلم خود انہوں نے اپنے اوپر کیا ہے۔ میاں نواز شریف کے خلاف
سپریم کورٹ کے فیصلے خود ان کی پارٹی کی حکومت
میں دئیے گیے تھے۔
میاں نواز شریف کو اپنی Money Launderingسرگرمیوں کا با
خوبی علم تھا۔ لیکن وہ یہ سب کچھ جانتے بوجھتے اپنے آپ کو ان حالات میں لاۓ ہیں۔
حکومت اور ادارے صرف ‘Doing
their job’ لہذا انہیں کسی سیاسی انتقام کا الزام دینا عوام کے فیصلوں کی
توہین کرنا ہو گی۔ عوام بھی اب یہ چاہتے
ہیں کے حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے احتساب کا عمل بہت ضروری ہے اور حکومت
کرپشن کا مذہبی فریضہ سمجھ کر خاتمہ کرے۔ عوام نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو 3 موقع
Good Governance کے دئیے تھے۔ لیکن
ان پارٹیوں نے عوام کو Bad
Governance دی تھیں۔ ان کے کرپشن عوام کی گردن تک پہنچ گیے
ہیں۔ عوام کی چیخیں سن کر یہ الزامات کی بو چھار ایک ایسی حکومت پر کرنے لگتے ہیں۔
جو 40 سال میں کبھی اپوزیشن میں نہیں تھی۔ اور اقتدار میں بالکل Brand New ہے۔ اور جب بھی کوئی کمپنی،
کارپوریشن یا حکومت کو Take
over کرتا ہے۔ تو سب سے پہلے بنک یا خزانے میں فنڈ ز دیکھتا ہے۔ عمران
خان حکومت کو فنڈ ز کی جگہ قرضوں کی ادائیگی کے بل اور Utilities کے بل جن کی کئی ماہ سے ادائیگی
نہیں کی گئی تھے، ر کھے ملے تھے۔ جب کھو ج
لگایا کہ فنڈ ز کہاں گیے تھے۔ تو پھر چور یاں اور چور پکڑے گیے۔ اور اب یہ
ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔ اور قومی خزانے سے اپنی چور یاں سن کر بیمار ہو گیے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے بلا و ل زر داری بھٹو کہتے ہیں کہ "حکومت سیاسی لیڈروں کی
بیماری سے سیاست مت کرے۔" ن لیگ کے خواجہ آصف کہتے ہیں " میاں صاحب کے
اثاثے پاکستان میں ہیں۔ گھر یہاں ہیں۔ وہ واپس یہاں آئیں گے۔" لیکن میاں صاحب
کے بنک اکاؤنٹس باہر ہیں۔ میاں صاحب کے دو بیٹے بھی ان کا اثاثہ ہیں۔ جو لندن میں مہنگی
ترین جائیدادوں کے مالک ہیں۔ 11 سال قبل 2008 میں جنرل کیانی نے اسلام آباد میں
نیویارک ٹائم کی رپورٹر کے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا "ہم زر داری کو پسند
نہیں کرتے ہیں اور نواز شریف پر ہمیں بھر و سہ نہیں ہے۔" لیکن اس امیج کے باوجود
فوج نے دونوں کو حکومت میں بر داشت کیا تھا۔ بہرحال ان دونوں کی حکومتوں میں قوم
متعدد بیماریوں میں مبتلا ہوئی تھی۔ سب سے مہلک بیماری دہشت گردی تھی۔ جس میں
60ہزار لوگ مر گیے تھے۔ سیاست کرپشن کی مریض تھی۔ جس کا دنیا کے کسی ملک میں کوئی
علاج کرنے والا نہیں تھا۔ اس لیے سیاست کو علاج کے لیے باہر بھی نہیں بھیجا جا
سکتا تھا۔ جب سیاست صحت مند ہوتی ہے تو معیشت بھی مضبوط ہوتی ہے۔ معیشت کو مضبوط
بنانے کے لیے سیاست کا صحتیاب ہونا ضروری ہے۔ احتساب کا عمل اس کا واحد علاج ہے۔
سیاست اور معیشت جب صحتیاب ہو گی تو کر پٹ لیڈر بیمار ہوتے جائیں گے۔ اور جب لیڈر بہت زیادہ
صحت مند ہو جاتے ہیں تو سیاست اور معیشت طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی
ہے۔ یہ بھی قدرت کا نظام ہے۔
شریف خاندان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کرتے
نہیں ہیں جو کہتے ہیں۔ یا جو کہتے اس پر قائم نہیں رہتے ہیں۔ میاں نواز شریف “Man of the word” نہیں ہیں۔ پا
نا مہ پیپر ز میں ان کا نام Money
Laundering کرنے میں آیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنا
دفاع کرتے ہوۓ یہ بیان دیا تھا کہ 'اگر ان کے خلاف Money Laundering کے الزامات ثابت ہو گیے تو وہ
وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑ دیں گے۔' اس کیس میں تمام ثبوت ان کے خلاف آ رہے تھے۔ میاں
نواز شریف کے یہ علم میں تھا کہ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے Money Laundering کی ہے۔ لیکن وہ شاید کسی بڑے معجزہ
کے انتظار میں وزیر اعظم کے عہدہ سے چپکے رہے۔ انہیں کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے
استعفا دے دینا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف پر نااہل ہونے کی جب Stamped لگا دی تب میاں صاحب وزارت چھوڑنے
پر مجبور ہو گیے تھے۔ ان کے نام پر سپریم کورٹ کی اس Stamped کے بعد
میاں نواز شریف دوبارہ کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکتے ہیں۔
اہم Public Servant شخصیتوں کا نام ان
کا زیور ہوتا ہے۔ وہ اپنے نام پر کسی قسم کے داغ نہیں آنے دیتے ہیں ۔ لیکن Lust of power اور Greet of wealth نہ صرف میاں نواز شریف کے لیے
بلکہ ان کے خاندان کے لیے بھی تباہی لائی ہے۔ خاندان کے ہر فرد کا پنڈ رہ با کس کھلتا
گیا۔ اور وہ ایک کے بعد دوسرے کیس میں مجرم ہوتے گیے۔ میاں نواز شریف اپنے صرف ایک
غلط فیصلے کی اب بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کو عمران خان حکومت نے
کرپشن کیس میں مجرم نہیں قرار دیا ہے۔ یہ عدالتوں کے فیصلے ہیں۔ اور یہ فیصلے واپس
لے کر میاں صاحب کو اس لیے بے گناہ نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وہ شدید علیل ہیں۔ ن لیگ
کی حکومت میں 14 بے گناہ لوگوں کا لاہور میں سیاسی بنیاد پر قتل کیا گیا تھا۔ ن
لیگ کے جو لیڈر آج انسانیت کی باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس وقت اس غریب انسانیت
کی اس طرح حمایت نہیں کی تھی۔ اور ان کے قاتل کو سزا نہیں دلوائی تھی۔ ان لیڈروں
کی یہ بیماری ہے کہ ہر چیز کو یہ صرف اپنے مفاد میں دیکھتے ہیں اور اسی تنگ نظر مفاد
میں بولتے ہیں۔ ان کے کوئی اصول ہیں۔ نہ اخلاقی کردار ہے۔ نہ یہ قانون کا احترام
کرتے ہے۔ نہ عدالتوں کے فیصلوں کی پرواہ کرتے ہیں۔ ہاں اگر یہ ان کے حق میں ہوں تو
پھر بڑے زور سے اور اچھل اچھل کر بولتے ہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں
کرپشن قوم کے لیے اذیتیں بنا ہوا تھا۔ کسی کو ان لوگوں سے ہمدردی نہیں ہے جو کرپشن
کی اذیتوں کی وجہ سے شدید علیل ہیں۔ جو قومی خزانہ لوٹنے والوں کی وجہ سے شدید
بیمار ہیں۔ پاکستان میں سارے ٹی وی چینلز صبح سے رات گیے تک صرف نواز شریف اور
مولانا فضل الر حمان سے ہمدردی دکھاتے ہیں۔ انسانی بنیادوں پر قانون توڑ کر میاں
نواز شریف کو علاج کے لیے باہر جانے کی حمایت کرتے ہیں۔ یا نواز شریف کے باہر جانے
کے لیے ایک نیا اسپیشل قانون بنانے کی حمایت کرتے ہیں۔ اس ملک میں جب سوچ یہ ہو گی
تو اس ملک میں نہ تو کبھی قانون کی حکمرانی ہو گی اور نہ ہی جمہوریت مہذب ہو گی۔ امریکہ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ Law of the land ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کا کوئی
دوسرا جج بھی اسے نہیں بدل سکتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی پارٹیاں سپریم کورٹ کے
فیصلوں کا احترام کرتی ہیں۔ نہ ہی میڈیا سپریم کورٹ کے فیصلوں کو اہمیت دیتا ہے۔ نہ
ہی سیاسی لیڈر سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پرواہ کرتے ہیں۔ سب کی ڈکٹیٹروں کے دور کی
ذہنیت ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنا قلم استعمال کریں اور میاں نواز شریف کو علاج
کے لیے باہر جانے کا فرمان جاری کر دیں۔ انسانی بنیادوں پر ملک کے عدالتی نظام کو By pass کر دیا جاۓ۔ میاں نواز شریف کو
اگر عمران خان باہر جانے کی اجازت دیتے ہیں تو یہ جیل توڑ کر فرار کا راستہ دینا
ہو گا۔ ہاں حکومت عدالت سے یہ درخواست کر سکتی ہے کہ میاں نواز شریف کی پراپرٹی پر
حکومت کی Lien ہو
گی۔ تاکہ میاں نواز کی پراپرٹی کو فروخت نہیں
کیا جا سکتا ہے۔ یا فروخت کی صورت میں حکومت پہلے اپنے Lien کی رقم وصول کرے گی۔ اس عدالتی
فیصلے کو مستقبل کی حکومت میں بھی برقرار رکھا جاۓ گا۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد
میاں نواز شریف باہر جا سکتے ہیں۔ لیکن انہیں ایک مختصر مدت کے اندر واپس آ کر اپنی
بقیہ سزا مکمل کرنا ہو گی۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ مولانا کو
کامیاب دہر نے پر مبارک با دیں دی جا رہی ہیں۔ انہیں اپوزیشن کا God Father تسلیم کیا جا رہا ہے۔
مولانا کا دہرنہ، دھونس اور دھمکیاں قوم کے بچوں کے لیے ایک رول ماڈل بنایا جا رہا
ہے۔ مولانا ملک میں قانون کی بالا دستی کی بات کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب انہیں
معلوم نہیں ہے کہ یہ کیا ہے؟ لیکن پھر دوسرے پیراگراف میں مولانا وزیر اعظم کا استعفا اور نئے انتخاب
کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن کس 'قانون کی بالا دستی' کے تحت مولانا یہ مطالبہ کر رہے
ہیں؟ اگر مولانا کے مطالبہ منظور کرنے سے یہ مثال بن گئی تو پھر مولانا کے بیٹے کے
حلقہ کے لوگوں کو اس کے گھر کے سامنے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفا دینے کے لیے
دہر نہ دینا چاہیے۔ یا کراچی کے شہریوں کو وزیر اعلی کی رہائش گاہ کے سامنے اس وقت
تک دہر نہ دینا چاہیے کہ جب تک کراچی شہر کا کوڑا صاف نہیں ہوتا ہے۔ یا لوگوں کو
اگر کسی ٹی وی چینل کا اینکر پسند نہیں ہے تو اس کی برطرفی کے لیے ٹی وی اسٹیشن کے
سامنے دہر نہ دینا چاہیے۔ اور ٹی وی اسٹیشن کی گاڑیوں کے راستہ میں رکاوٹیں بننا
چاہیے۔ ایک دن مولانا کے مدرسوں کے طالب علموں کو مدرسوں کے سامنے دہر نہ اس لیے دینا
چاہیے کہ حکومت ان مدرسوں کو فوری طور پر قومی ملکیت میں لے۔ یہ نظام مولانا فضل
الر حمان کا ہے۔ جسے ملک بھر میں عوام اپنے مطالبے منوا نے کے لیے رائج کریں۔ اصل حقیقت
یہ ہے کہ مولانا صرف اور صرف اپنے Survival کے لیے لڑ
رہے ہیں اور لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ مولانا کا 40سال کا ریکارڈ کہاں یہ ثابت
کرتا ہے کہ مولانا نے واقعی عوام کے لیے کچھ کیا تھا؟
No comments:
Post a Comment