Wednesday, November 20, 2019

The Sick Leaders and Pakistan’s Chronic Economic Diseases



  The Sick Leaders and Pakistan’s Chronic Economic Diseases
Are in the Media Bashing Imran Khan Government, Defending the Corrupt Political System?
مجیب خان
Prime Minister Imran Khan


  جب اداروں کی بالا دستی اور حدود میں رہنے کی بات کی جاتی ہے۔ تو پھر فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ جیسے وزیر اعظم عمران خان نے بیمار میاں نواز شریف کو  بیرون ملک علاج کے لیے جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ عدالت پر چھوڑا تھا۔ کیونکہ میاں نواز کے کیس عدالتوں میں تھے۔ ایک کیس میں میاں نواز کو سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ اور وہ جیل میں سزا کاٹ رہے تھے۔ اگر حکومت یہ فیصلہ کرتی تو اسے حکومت کا جیل توڑ کر مجرم کو فرار کرانا سمجھا جاتا۔ لیکن اب عدالت نے میاں نواز کو علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دی ہے۔ اور مجرم کے واپس نہ آنے کی صورت میں جج حضرات ذمہ دار ہیں۔ حکومت نے Humanitarian بنیاد پر Kind gesture کا مظاہرہ کیا ہے۔ امید ہے حکومت کے اس Kind gesture کو Honor کیا جاۓ گا۔ پاکستان میں understanding کا فقدان ایک بڑا مسئلہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے میاں نواز شریف سے جس ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ اس پر تنقید کرنے کے بجاۓ اسے سمجھنے کی کوشش کی جاۓ۔ اگر میاں نواز شریف کو کچھ ہو جاتا تو وزیر اعظم عمران خان کو ساری زندگی یہ Guilt رہتا کہ انہوں نے میاں نواز کو علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت کیوں نہیں دی تھی۔ اور پھر یہ کہ وزیر اعظم عمران خان جنرل ضیا الحق کی طرح ظالم بھی بننا نہیں چاہتے تھے۔  لیکن پاکستان میں چھوٹی ذہنیت کے لوگ ہر وقت تنقیدیں کرنے کے لیے آستینیں چڑھاۓ بیٹھے ہوتے ہیں۔ حکومت کے ہر فیصلے کی سرجری کرنے لگتے ہیں۔ انہیں صرف ٹی وی میں بیٹھ  کر باتیں کرنا آتی ہیں۔ جو ان کے لیے سب سے آسان کام ہے۔ لیکن ایک نئی حکومت کو در پیش مصائب اور مشکلات کو سمجھنا انہیں نہیں آتا ہے۔ سارا دن اور روزانہ ہر چینل پر Imran Khan Bashing ہوتی ہے۔ ایک اینکر پہلے اپنے پروگرام میں حکومت کی Bashing کرتا ہے۔ پھر وہ دوسرے چینل پر دوسرے اینکر کے پروگرام میں بیٹھا ہو گا اور حکومت کی Bashing کر رہا ہو گا۔ ایسی Bashing زر داری حکومت اور نواز شریف حکومت کی نہیں ہوئی تھی۔ زر داری حکومت میں وزیر داخلہ کی وزارت میں ملک ہر طرف انسانی خون سے سرخ ہو گیا تھا۔ لیکن ٹی وی چینلز نے وزیر داخلہ کو برطرف کرنے کی مہم نہیں چلائی تھی۔ زر داری حکومت کی عوام دشمن کارکردگی کی ایک طویل فہرست تھی۔ لیکن میڈیا نے زر داری کو بڑے آرام سے 5سال حکومت کرنے کے دئیے تھے۔ اسی طرح میڈیا نے میاں نواز شریف حکومت کے منہ میں سونے کے چمچے ر کھے تھے۔ ان کی حکومت ‘One Man Show’ تھی۔ اہم وزارتوں کے قلمدان انہوں نے اپنی جیب میں ر کھی تھیں۔ کبھی یہ تاثر پیدا ہوتا تھا کہ جیسے ان کی داخلہ پالیسی خارجہ پالیسی تھی۔ میڈیا اینکر ز نے ان کے وزارت خزانہ کی طرف دیکھنا گناہ کرنا سمجھا تھا۔ اگر ٹی وی اینکر ملک کے خزانہ پر نظر رکھتے تو شاید نئی حکومت کے لیے خزانے میں کچھ پیسے ہوتے۔ اور آج عوام کو ان اقتصادی مصائب کا سامنا نہیں ہوتا۔ اینکر ز عوام کو ملک کے حالات کے بارے میں Educate نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ان میں Understanding کا فقدان ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے قوم کے سامنے سابقہ حکومتوں میں عالمی قرضوں میں خوفناک اضافہ ہونے کے تمام اعداد و شمار قوم کے سامنے ر کھے تھے۔ لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ قرضہ کیا ہوتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں بنکوں سے قرضے لینے کے بعد انہیں واپس کرنے کی روایت نہیں ہے۔ حکومت سے قرضہ معاف کرا لیے جاتے ہیں۔ اس لیے وہ دنیا میں بھی شاید ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ دنیا میں قرضے واپس نہ کرنا بہت بڑی برائی سمجھی جاتی ہے۔ ملک عالمی مالیاتی نظام سے تنہا ہو جاتا ہے۔ حکومت کو عوام پر ٹیکس لگا کر، بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا میں اضافہ کر کے دنیا کے قرضے پہلے واپس کرنا پڑ رہے ہیں۔ سابقہ دو حکومتوں کی یہ بد معاشی تھی۔ انہوں نے عوام پر یہ اقتصادی ظلم کیا تھا۔ سابقہ حکومت انتہائی خود غرض لوگوں کی تھی۔ انہوں نے عوام کے نام پر دنیا بھر سے قرضے لیے تھے۔ پھر یہ قرضے آپس میں بانٹ لیے اور خالی خزانہ چھوڑ کر چلے گیے۔ سابق حکومت کا وزیر خزانہ آخر عوام سے کیوں منہ چھپا رہا ہے۔ کیوں ملک میں آ کر عوام کو جواب نہیں دیتا ہے کہ یہ قرضے کہاں گیے؟ میڈیا نے ان حکومتوں کا خود کبھی احتساب نہیں کیا ہے۔ ان کے کرائم پر پردے ڈالے ہیں۔ اور اب حکومت نے ان کا احتساب کرنے کا تہیہ کیا ہے۔ تو میڈیا میں حکومت کی ٹانگیں گھسیٹی جا رہی ہیں۔ ملک کرپشن میں غرق ہے۔ لیکن اس کی انہیں پرواہ نہیں ہے۔ سابقہ حکومت نے نوٹ چھاپ کر لوگوں کو Fake خوشحالی دی تھی۔ لیکن نوٹ چھاپ کر  افراط زر فروغ دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں قیمتیں آسمان پر پہنچ گئی تھیں۔ اس حکومت نے نوٹ چھاپ کر لوگوں کو دینا بند کر دیا ہے۔ اس لیے لوگوں کو مہنگائی کا شدت سے احساس ہو رہا ہے۔ لیکن جب افراط زر میں کمی آۓ گی تو قیمتیں بھی نیچے آئیں گی۔  
  اسی طرح میڈیا میں پنجاب میں وزیر اعلی شہباز شریف اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی کبھی Bashing نہیں کی تھی۔ ان کی حکومتوں میں یہ صوبے جیسے جنت تھے۔ ہر طرف دودھ کی نہریں تھیں۔ دو روپے میں لوگ جیسے تین وقت کا کھانا کھاتے تھے۔ ٹی وی پر کوئی اینکر یہ نہیں پوچھتا ہے کہ جناب آخر صوبائی خود مختاری کا مطلب کیا ہے؟ اور یہ کس بیماری کے علاج کے لیے ہے؟ اگر وفاقی حکومت ہی صوبوں کے حالات، امن و امان، نظم و ضبط، مہنگائی، بیروزگاری کی ذمہ دار ہے تو پھر وفاقی حکومت صوبائی خود مختاری ختم کر کے صوبوں کے حالات بہتر بنانے کے کام خود کرے گی۔ وفاقی حکومت کھربوں روپے صوبائی حکومتوں کو دیتی ہے۔ لیکن صوبوں میں عوام کو جن مسائل کا سامنا ہے۔ ٹی وی اینکر ز وفاقی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ سندھ میں 15سال سے صوبائی حکومت اقتدار میں ہے۔  سندھ کے لوگوں کے لیے اس حکومت نے کیا کام کیے ہیں۔ حکومت نے سندھ کے لوگوں کو مسائل میں کتنا ریلیف دیا ہے۔ میڈیا نے اس پر روزانہ کبھی حکومتوں کی Bashing نہیں کی ہے۔ چاروں صوبوں کے لوگوں کے ریڈار پر صرف وفاقی حکومت کو رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر ایک خاتون تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ "عمران خان بہت اچھے انسان ہیں۔ بہت ایماندار ہیں۔ بہت رحم دل ہیں۔ میں مانتی ہوں ان میں دنیا کی تمام خوبیاں ہیں۔ لیکن انہیں حکومت کرنا نہیں آتا ہے۔" اگر خاتون کے اس تجزیے کا Interpret سے یہ مطلب ہے کہ پاکستان میں دیانت داروں کو حکومت نہیں کرنا چاہیے۔ حکومت کرنے کا پاکستان میں صرف چند خاندانوں کا حق ہے۔ صرف وہ حکومت کرنا جانتے ہیں۔ خاتون فرماتی ہیں عمران خان کو حکومت کرنے کا تجربہ نہیں ہے۔ محترمہ، حکومت کرنے کا تجربہ ماں کے پیٹ سے لے کر کوئی نہیں آتا ہے۔ نئے لوگوں کو اب حکومت کرنے آ گے آنا ہے۔ پرانے لوگوں کا حکومت کرنے کا دور اب ختم ہو گیا ہے۔ دنیا نے وزیر اعظم عمران خان کی قیادت کا خیر مقدم کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کو پاکستانی میڈیا کے سامنے ایک اچھا لیڈر کہا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں نے بھی وزیر اعظم پر اعتماد کیا ہے۔ اور ان کی مدد کرنے فخر سے آگے آۓ ہیں۔ وزیر اعظم کے بارے میں عالمی میڈیا کے تجزیے خاتون تجزیہ کار سے بہت مختلف ہیں۔ پاکستان میں اینکر ز کو وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں بڑے شبہات ہیں۔ بڑی شکایتیں ہیں۔ لیکن عالمی لیڈر سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے عوام کے اقتصادی حالات بہتر بنانے اور غربت ختم کرنے میں بہت مخلص ہیں۔ عالمی لیڈر وزیر اعظم عمران خان کے کرپشن کے خلاف Initiatives کو بھی سراہا تے ہیں۔ لیکن پاکستان میں میڈیا اور اینکر کسی اور دنیا میں بیٹھ کر حکومت کے بارے میں تجزیے کرتے ہیں۔ میڈیا میں لوگوں کا جب کوئی ضمیر نہیں ہوتا ہے۔ تو آزادی صحافت ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں ہوتا ہے۔
 میں نے مولانا فضل الرحمان کے نام نہا د ملین مارچ پر لکھا تھا کہ اچانک مولانا نے جس طرح عمران خان کے استعفا اور نئے الیکشن کی بات کی تھی۔ ان کے اس مطالبے کے پیچھے مودی حکومت کا ایجنڈہ تھا۔ وزیر اعظم عمران کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کو ہندو پرست مودی حکومت اس وقت تک نہیں بھولے گی کہ جب تک عمران خان اقتدار میں ہیں۔ اس خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے RSS (Rashtriya Swayamsevek Sangh) کی تاریخ دنیا کے سامنے بیان کی تھی۔ جس سے نریند ر مودی کا بچپن سے گہرا تعلق ہے۔ اس سے بھارت کو سخت تکلیف پہنچی ہے۔ مودی حکومت کا عالمی امیج خراب ہوا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپنی آستینیں اوپر چڑ الی ہیں۔ پاکستان میں بھارت نواز جماعتوں اور میڈیا میں عمران حکومت کے خلاف اچانک تیزی آ گئی ہے۔ عمران کے استعفا کے مطالبے دہلی تک سنے جا رہے ہیں۔ مولانا ٹٹو کی طرح اڑے ہوۓ ہیں کہ عمران خان استعفا دیں اور نئے انتخاب بھی ہوں گے۔ شکست خوردہ لیڈروں کے مطالبے پر انتخابات نہیں ہونا چاہیں۔ یہ 1977 نہیں ہے۔ یہ صرف بھارت کے مفاد میں اپنے ملک کا امن و امان اور جمہوریت کو ایک بار پھر سبوتاژ کرنے غنڈہ گردی پر اتر آۓ ہیں۔ ایسی افو ا ہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ انتخاب 6ماہ میں ہوں گے۔ وزیر اعظم چند ماہ میں جانے والے ہیں۔ کبھی کہا جا رہا ہے کہ آرمی چیف کی وزیر اعظم عمران خان سے حالیہ ملاقات میں دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ نہیں تھی۔ جس کے بعد وزیر اعظم نے دو دن چھٹی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسی افواہیں پھیلا کر ملک دشمن لیڈر غیر ملکی سرمایہ پاکستان آنے سے روکنے کی سازش کر رہے ہیں۔ سرمایہ کاروں میں مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ ملک میں ایک بار پھر غیریقینی حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ لوگوں کو پھر بیوقوف بنا رہے ہیں۔ ان کا ماضی اور حال قوم کے سامنے ہے۔ انہوں نے اسلام کو استعمال کیا ہے۔ اپنے آپ کو خوشحال کیا ہے۔ اور اپنے ہم وطنوں کی زندگیاں برباد کی ہیں۔ قوم کا مفاد ان کے سامنے ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے لفافوں کے ساتھ  بھارت کے لفافہ بھی چل رہے ہیں۔ جو جتنا زور سے عمران خان کی حکومت ختم کرنے کی بات کر رہا ہے۔ اس کی جیب میں اتنا ہی بڑا لفافہ ہے۔ عمران خان حکومت کے خلاف اقتدار سے محروم ہونے والے لیڈر اور مودی حکومت اب ایک ہی Page پر ہیں۔ دونوں کا مقصد پاکستان میں Chaos پیدا کرنا ہے۔ ایک نیوز رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے نئی دہلی میں سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان میں Fake خبریں پھیلانے کا ایک خصوصی سیل قائم کیا ہے۔ جو یورپ میں بھی کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف کو Fake خبروں سے Counter کرے گا۔ بھارت نے حال ہی میں یورپ کے انتہائی Ultraright قوم پرستوں کے ایک وفد کو جو یورپ میں مسلمان Immigrants کے خلاف ہیں انہیں مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرایا تھا۔ اور انہیں کشمیری مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف انتہائی نفرت اور حقارت سے بھری بریفنگ دی تھی۔ کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت کو یورپی وفد سے پاکستان کی دہشت گردی کی سرگرمیاں بتایا تھا۔ تاکہ وہ یورپ میں اپنی حکومتوں اور اراکین پارلیمنٹ کے سامنے بھارت کا موقف بیان کریں۔ گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیا میں عمران خان حکومت کے خلاف Fake خبروں کی مہم میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ عمران خان استعفا دو اور گھر جاؤ میں زور پیدا کیا جا رہا ہے۔
  میاں نواز شریف اب اپنے اصل گھر پہنچ گیے ہیں۔ اس خوشی میں ان کی آدھی بیماری کا علاج ہو گیا ہو گا۔ میرے خیال میں شاید اس مرتبہ بھی سعودی عرب نے پس پردہ انہیں آزادی دلانے میں رول ادا کیا ہے۔ تاہم سعودی ولی عہد شہزادہ محمد نے کرپشن کے خلاف اپنے خاندان کے بھائیوں اور کزن شہزادوں کو نظر بند کر دیا تھا۔ اور انہیں اس وقت چھوڑا تھا جب ان سے لاکھوں اور کھربوں ڈالر وصول کر لیے تھے۔ اس لیے سعودی حکومت کرپشن کے خلاف عمران خان حکومت کی مہم کو بہتر سمجھتی ہے۔ میاں نواز شریف ایک سعودی شہزادے کے سسر ہیں اور شہزادے کے بچوں کے نانا بھی ہیں۔ میاں نواز شریف کے ایک صاحبزادہ اس دوران سعودی عرب میں تھے۔ اس مرتبہ سعودی بادشاہ کی بجاۓ قطر کے شہزادہ نے ایمبولینس طیارہ بھیجا تھا۔ آنے والے دنوں میں پتہ چل جاۓ گا کہ میرا یہ خیال درست تھا؟                           

No comments:

Post a Comment