Why Are the Saudis Not Interested
in Dialogue with Iran On Regional Peace and Security?
Even Iran is ready to give up
its nuclear program if Arabs sign a regional security plan with Iran
مجیب خان
Anti-government demonstrations in Iraq |
Lebanese protesters calling for an End of corruption, sectarianism, Beirut Oct26, 2019 |
Human destructions in Syria |
The Saudi war in Yemen, Sanaa's |
سعودی شاہ سلمان نے حکومت کی نامزد
شوری کونسل سے سالانہ خطاب میں اپنی 8منٹ کی تقریر میں کہا ہے “International community must
stop Tehran’s nuclear and ballistic missile programs and its regional
intervention. It was time to stop the ‘chaos and destruction’ generated by
Iran.” he said “we hope the Iranian regime chooses the side of wisdom and realize
there is no way to overcome the international position that rejects its practices
without abandoning its expansionist and destructive thinking that has harmed
its own people”
یہ سعودی شاہ کے ایران کے بارے میں خیالات تھے۔ جبکہ دوسری
طرف سابق نائب صدر اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار Joseph Biden نے گزشتہ ہفتہ پارٹی کے ایک
پرائمری مباحثہ میں جمال کشوگی کے حوالے سے سعودی عرب کے بارے میں ایک سوال کے جواب
میں کہا
He would end arms supplies
and turn the regime of Crown Prince Mohammed bin Salman into a global pariah. I
would make it very clear we were not going to in fact sell war weapons to them.
We were going to in fact make them pay the price and make them, in fact, the pariah
that they are. There is very little socially redeeming value in the present
government in Saudi Arabia---And I would also end the subsidies we have, end sale
of material to the Saudis who were going in and murdering children and
murdering innocent people. They have to be held accountable.”
Joseph Biden8سال صدر اوبامہ کے نائب صدر تھے۔
اوبامہ انتظامیہ میں سلامتی اور خارجہ امور پالیسی ٹیم کے ایک اہم رکن تھے۔ شام کی
داخلی خانہ جنگی میں اوبامہ انتظامیہ کی مداخلت میں خلیج کے حکمران قریبی اتحادی
تھے۔ اس مداخلت کے نتیجہ میں شام میں لاکھوں بچے اور لوگ مارے گیے تھے۔ 9/11 کے بعد قومی سلامتی کے خطروں کے
نام پر جیسے عالمی قوانین اور Rule of Law suspended ہیں۔ امریکہ، اتحادی اور دہشت گرد سب بے گناہ انسانیت کو ہلاک
کرنے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی دوڑ میں شریک ہیں۔ عراق، لیبیا، شام، یمن
میں انسانیت کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مارا گیا ہے۔ یہ عالمی طاقتوں کی سیاست کے Victims ہیں۔ ان کے حکمران جیسے بھی تھے۔
یہ اپنے ملک میں امن سے رہتے تھے۔ اقتصادی طور سے خوشحال تھے۔ حکومت کی طرف سے روز
گار فراہم کرنے کی ضمانت تھی۔ اور یہ اپنی زندگیوں میں مگن رہتے تھے۔ کون شیعہ ہے
اور کون سنی ہے اور کون عیسائی ہے۔ ان کے نزدیک یہ اہم نہیں تھا۔ سب انسان تھے اور
یہ اہم تھا۔ لیکن بش انتظامیہ کی Regime change Doctrine نے ان کی زندگیاں Upside down کر دیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے
کہ ہزاروں میل سے جب بھی حملہ آور آۓ ہیں انہوں نے مقامی آبادی کا امن، تہذیب و
تمدن اور ثقافت تباہ کیا ہے۔ اور معاشرے کا شیرازہ بکھیر کے گیے ہیں۔ عراق، شام،
یمن اور لیبیا میں شیعہ سنی اور عیسائی سب صدیوں سے رہتے تھے۔ فرقہ پرستی یہاں کبھی مسئلہ نہیں تھا۔
یہ سب پہلے عرب تھے۔ اور پھر ان کی وفا داری اپنے ملک سے تھی۔ اور مذہب آخر میں
آتا تھا۔ شام میں بشر السد کی قیادت میں شیعہ سنی اور عیسائی سب اپنے ملک کے لیے لڑیں ہیں۔ سب نے یکساں جانیں دی ہیں۔ اور باغی دہشت گردوں اور ان
کی پشت پنا ہی کرنے والوں کو شکست دی ہے۔
بش انتظامیہ نے عراق پر حملہ مہلک ہتھیاروں کے نام پر کیا تھا۔ حالانکہ
عراق میں مہلک ہتھیاروں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ یہ بش انتظامیہ تھی جس نے
عراق میں شیعہ سنی فرقہ پرستی تقسیم کی بنیاد ر کھی تھی۔ سعودی عرب کو سنیوں کی
قیادت دی تھی اور ایران کو شیعاؤں کا لیڈر بنا دیا تھا۔ اسلامک ور لڈ اس تقسیم سے خوش
ہے اور نہ ہی یہ اسے قبول ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اس شیعہ سنی تقسیم کو زبردستی
اسلامک ور لڈ پر مسلط کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور اس کے خلیجی اتحادی شیعہ سنی
تقسیم شاید اپنی سلامتی کے مفاد میں سمجھتے ہیں۔ عرب بادشاہوں کے دماغ بھی نوآبادیاتی
اور سامراجی ہو گیے ہیں۔ اپنے خطہ میں مذہبی اور ثقافتی تقسیم پیدا کر کے یہ بھی حکمرانی
کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
عراق میں اب حکومت کے خلاف مظاہرے ہو
رہے ہیں۔ لبنا ن میں بھی حکومت کے خلاف لوگ سڑکوں پر آ گیے ہیں۔ الجیریا میں بھی
لاکھوں لوگوں نے حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا
تھا۔ جس کے نتیجہ میں صدر Bouteflika حکومت
کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔ حکومت کے خلاف الجیریا کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا مظاہرہ
تھا۔ اور پھر ایک نئی حکومت اقتدار میں آتی تھی۔ لیکن ان مظاہروں میں کہیں بھی
شیعہ سنی ایشو نہیں ہے۔ ہر جگہ لوگوں کے ایشو ز اقتصادی ہیں ۔ بیروزگاری ہے۔ بش
چینی نے عراق پر جب حملہ کیا تھا۔ اس وقت جو بچے 4 سال کے تھے وہ اب 20 سال کے ہو
گیے ہیں۔ اور جو اس وقت 10سال کے تھے وہ اب 26 سال کے ہیں۔ ان کو امریکہ کے فوجی
حملہ نے کیا دیا ہے؟ آج یہ ان کا مستقبل ہے۔ نہ تعلیم ہے اور نہ روز گار ہے۔ نہ
امن ہے اور نہ خوشحالی ہے۔ دنیا نے ان پر ظلم کیا ہے۔ اور اب اپنا یہ Guilt ایران کو الزام دے کر دنیا کی
نظروں میں خود کو بے گناہ ثابت کر رہے ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ امارات اور خلیج کے
بعض دوسرے ملک ان کے Guilt میں شامل ہیں۔
جو مناظر آج عراق اور لبنا ن میں دیکھے جا رہے ہیں۔ اور جو الجیریا میں دیکھا گیا
تھا۔ وہ بحرین، ابو دہابی، ریاض اور جدہ میں بھی دیکھے جائیں گے۔ خطہ کا عدم
استحکام حالات کو اسی رخ میں لے جا رہا ہے۔ 4عرب ملک عراق، شام، یمن اور لبنا ن
عدم استحکام کا سامنا کر رہے ہیں۔ 4 عرب ملک عدم استحکام ہونے کے لیے تیار ہیں۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ "سعودی عرب امریکہ کے بغیر 7دن سے زیادہ Survive نہیں کر سکتا ہے۔" سعودی حکومت نے شاید صدر ٹرمپ سے اتفاق
کیا تھا۔ جب ہی سعودی شاہ نے امریکہ سے 5ہزار فوجوں بلائی ہیں۔ کیا بادشاہتیں اس طرح Survive کرتی ہیں؟ سنی اسلام کے لیڈر بن کر شیعہ اسلام سے جنگ کرنے بادشاہ
امریکہ برطانیہ اور فرانس کی بیساکھیوں پر کھڑے ہو گیے ہیں۔ سعودی ولی عہد شہزادہ
محمد 14سو سال جنگ کو اب نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں۔ اس قدیم سوچ کے ساتھ ولی عہد
سعودی عرب کو ایک جدید ریاست بنانا چاہتے ہیں۔
غیر عرب سنی ملک سعودی حکومت کی اس
سوچ اور موقف سے بالکل اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ سعودی عرب کی ایران دشمنی سے بھی یہ
ممالک خاصے Frustrated ہیں۔ تقریباً 4سال
سے سعودی عرب، اسرائیل اور امریکہ ایران کو مڈل ایسٹ میں Chaos پیدا کرنے اور عراق لبنا ن شام یمن میں مداخلت کرنے کے الزام دے
رہے تھے۔ ایران کا Behavior تبدیل
کرنے لیے اسے بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم کرنے کی سزا دے رہے تھے۔ لیکن اب یہ
سعودی عرب، اسرائیل اور امریکہ ہیں جو عراق اور لبنا ن میں Chaos پیدا کر رہے ہیں۔ اور ان ملکوں کو
عدم استحکام کر رہے ہیں۔ عراق اور لبنا ن کے ایران سے قریبی تعلقات منقطع کرنے کی
یہ ایک تحریک ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی ایک عرصہ سے عراق کو
انتشار میں رکھنے کی پالیسی تھی۔ عراق میں یہ سنی انتہا پسندوں کی پشت پنا ہی کر
رہے تھے۔ بلا آخر ایران اور ترکی کی انتھک کوششوں سے عراق میں سیاسی استحکام آنا
شروع ہوا تھا۔ منتخب سیاسی حکومت نارمل طور پر Function کرنے کے
قابل ہو رہی تھی۔ معیشت بھی ٹریک پر آ رہی تھی۔ لیکن پھر عراق امریکہ سعودی عرب
اور اسرائیل کی ایران کے ساتھ سخت کشیدگی کے Crossfire میں آگیا ہے۔ عراق ایک شیعہ ملک
ہے اور ایران کے ساتھ اس کے بہت قریبی تعلقات ہیں۔ وزیر اعظم Adil Abdul-Mahdi نے ایران کے خلاف فوجی کاروائی کرنے
کی مخالفت کی تھی۔ اور عراق کی سرزمین سے ایران پر حملہ کرنے کی اجازت دینے سے
انکار کیا تھا۔ وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے مظاہرے ہو رہے
ہیں۔ اب سعودی عرب امریکہ اور اسرائیل سے کوئی یہ پوچھے کہ عراق اور لبنا ن میں Chaos کے پیچھے کون ہے؟ بلاشبہ سعودی
عرب اور بحرین کے لوگ عراق اور لبنا ن میں مظاہروں سے Encourage ہو رہے ہوں گے۔ اور اگر کل وہ بھی
اس طرح مظاہرے کرنے سڑکوں پر آتے ہیں تو
اس کا الزام کس کو دیا جاۓ گا؟ دنیا نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ایران میں حکومت کے
پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے فیصلے کے خلاف ایرانیوں کے پر تشدد مظاہروں کی
امریکہ اور سعودی عرب نے حمایت کی تھی۔ اور انہیں حکومت کا خاتمہ کرنے کی شہ دی
تھی۔ مڈل ایسٹ ایسی گندی سیاست کے لئے دنیا میں مشہور ہے۔ جیسے یہاں کے حکمران ہیں
ویسے ہی ان کے سیاسی حالات ہیں۔ یہ عوام ہیں جو ان کے پیدا کردہ Miserable حالات میں اپنے آپ کو زندہ رکھ
رہے ہیں۔ اور وہ اب ان حالات کو بدلنا چاہتے ہیں۔
مڈل ایسٹ اس وقت Lava پر کھڑا ہے۔ ہر سال مڈل ایسٹ کے
حالات میں بہتری نہیں آ رہی ہے۔ بلکہ یہ بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اور اس سال
یہاں حالات اور زیادہ بدتر ہو گیے ہیں۔ ایران کی حکومت سعودی عرب اور خلیج کی
ریاستوں کے ساتھ پرامن تعلقات میں بہت مخلص اور سنجیدہ ہے۔ جس میں اس خطہ کا مفاد
ہے۔ جس میں خطہ کے لوگوں کی فلاح و بہبود ہے۔
ایران نے 'مڈل ایسٹ سلامتی' کا پلان عربوں کے سامنے رکھا ہے۔ جس میں خطہ کے
ہر ملک کی سلامتی کی ضمانت دی گئی ہے۔ خطہ کے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت
نہیں کرنے کا کہا گیا ہے۔ خطہ کے امن اور استحکام کو فروغ دینے کی مشترکہ کوششیں کرنے
کا کہا گیا ہے۔ خطہ کے ہر ملک کے ساتھ تجارت اور اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں
تعاون کیا جاۓ گا۔ یہاں تک کے ایران نے اس پلان میں اپنے نیو کلیر پروگرام سے مکمل
طور پر دستبردار ہونے کی پیشکش بھی کی ہے۔ لیکن سعودی حکومت نے ایران کے اس منصوبے
اور نیوکلیر پروگرام کے بارے میں اس کی پیشکش کا ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں دیا
ہے۔ سعودی بادشاہ امریکہ اور اسرائیل کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
آج کی خطرناک دنیا میں قومی سلامتی کی
ضمانت صرف خطہ کی سلامتی میں ہے۔ چین کی قیادت کی بالخصوص اپنے خطہ بلکہ ایشیا کو
امریکہ کی فوجی مہم جوئیوں سے دور رکھنے میں سرگرمیاں تیز تر ہو گئی ہیں۔ خطہ اور
ایشیا کے ہر ملک کے ساتھ چین Dialogue کر رہا ہے۔ چین
نے جنوبی کوریا سے حال ہی میں دفاعی معاہدہ کیا ہے۔ چین نے جاپان کے ساتھ بھی تجارت
اور سلامتی امور پر معاہدہ کیا ہے۔ اور چین اب جنوبی کوریا اور جاپان میں دفاعی
سلامتی معاہدہ کرا رہا ہے۔ امریکہ پر فوجی انحصار کرنے کا عالمی سیاست میں رجحان
اب Obsolete ہوتا جا رہا
ہے۔ امریکہ پر فوجی انحصار کرنے کی Cost میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ اس صورت میں قومی سلامتی کے مفاد
میں سب سے سستا طریقہ علاقائی سلامتی کا منصوبہ ہے۔ صدر Xi Jinping نے بھارت کو امریکہ کے Military Orbit میں داخل ہونے سے روکنے لیے وزیر
اعظم نریند ر مودی سے Dialogue جاری رکھنے کا
فیصلہ کیا ہے۔ یشو
No comments:
Post a Comment