Tuesday, December 17, 2019

India, End of Secular and Progressive Democratic Values, Hindu Extremist’s Agenda Is Shaping New Laws


 India, End of Secular and Progressive Democratic Values, Hindu Extremist’s Agenda Is Shaping New Laws

India is becoming the Hindu state only for the Hindu people, as Israel is a Jewish state only for Jewish people 
مجیب خان
Protests in Guwahati, Assam, against the new citizenship law, Dec13,2019

Indian students protests against anti-muslims citizenship law

Riots in Jammu- Kashmir

Israel's Prime Minister Benjamin Netanyahu with India's Prime Minister Narendra Modi, Olga Beach, Israel, July6, 2017




  مودی حکومت نے ابھی تک یہ دعوی نہیں کیے ہیں کہ بھارت کے شہروں میں جو پر تشدد مظاہرے اور ہنگامے ہو رہے ہیں۔ یہ سب دہشت گرد ہیں اور یہ پاکستان سے Cross border دہشت گردی ہے۔ یہ بھارت کو عدم استحکام کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مودی حکومت اب یہ دعوی بھی نہیں کر سکتی ہے۔ کیونکہ مودی حکومت کے انتہا پسندانہ اقدامات دنیا خود دیکھ رہی ہے۔ مودی حکومت میں بھارت میں ہندو انتہا پسندی کا عروج ہو رہا ہے۔ 70سال سے ایک کامیاب سیکو لر جمہوری بھارت اب ہندو انتہا پسندوں کے فاشسٹ نظام میں Transform ہو رہا ہے۔ اور ان کے فاشسٹ نظام میں بھارت صرف ایک ہندو ریاست ہو گی۔ 70سال سے یہ ہندو انتہا پسند ایک ایسے لیڈر کو ڈھونڈ رہے تھے۔ جو ایک دن ان کے خواب کی تعبیر پوری کر سکتا تھا۔ اور یہ لیڈر انہیں اب مل گیا ہے۔ جو نریند مودی ہے۔ اس لیڈر کو  انہوں نے گجرات میں آزمایا تھا۔ صرف نریندر مودی ہندو انتہا پسندوں کے دیرینہ ایجنڈے کی تکمیل کر سکتا تھا۔ اس لیے گزشتہ انتخاب میں انتہا پسند ہندوؤں نے نریندر مودی کو بھارت کی 29 ریاستوں میں بھاری اکثریت سے کامیاب کیا ہے۔ نریندر مودی کی پارٹی کو پارلیمنٹ میں مکمل برتری مل گئی ہے۔ قانون سازی میں مودی کو کسی دوسری پارٹی کی  ضرورت نہیں ہے۔  ہندو انتہا پسندوں کے ایجنڈے کے مطابق قانون پارلیمنٹ منظور کرے گی۔ مودی نے دوسری مرتبہ منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے کشمیریوں کے خلاف چھریاں تیز کی تھیں۔ کشمیریوں کو حق خود مختاری دینے کا تنازعہ اس طرح حل کیا تھا کہ انہیں حق خود مختاری سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیا اور مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں شامل کر لیا۔ کشمیری تقریباً  180 دن سے گھروں میں نظر بند ہیں جسے مودی کہتی ہے یہ کرفیو ہے۔ ان کے باہر کی دنیا سے تمام رابطے منقطع کر دئیے ہیں۔ کشمیریوں کی نقل و حرکت انتہائی محدود کر دی ہے۔ ہندو فوج نے ان کی ریاست ہائی جیک کر لی ہے۔ ہندو فوج نے کشمیری مسلمانوں کو یرغمالی بنا لیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر لیا ہے۔ پارلیمنٹ نے اس سلسلے میں قانون بھی منظور کر لیا ہے۔ اور مرکزی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی حکومت قائم کر دی ہے۔ مودی نے انتہا پسند ہندوؤں سے اپنا ایک وعدہ پورا کر دیا ہے۔ اب دوسرے مرحلے میں ہندوؤں کو کشمیر میں آباد کرنے کا عمل شروع ہو گا۔ مودی حکومت نے 180 دن کشمیریوں کو ان کے گھروں میں قید کر کے کشمیریوں کی معیشت کا زبردست نقصان کیا ہے۔ اس وقت تک تقریباً 50بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ مودی کے ہندوؤں کی گھٹیا ذہنیت یہ ہے کہ جب کشمیر کی معیشت میں کشمیریوں کے لیے زندہ رہنے کے لیے کچھ نہیں ہو گا تو یہ کشمیر چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں چلے جائیں گے۔ اور ہندو ان کی جگہ یہاں آ جائیں گے۔ ہندو یہاں اکثریت بن جائیں گے اور مسلمان اقلیت ہو جائیں گے۔
  کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف ان اقدامات کے بعد مودی حکومت نے بھارت کے مسلمانوں کی شہریت کا قانون رائج کیا ہے۔ اس قانون کے تحت مسلمانوں کو بھارت کی شہریت نہیں دی جاۓ گی۔ اس قانون کے خلاف آ سام، بہار اور بھارت بھر میں احتجاج اور پر تشدد مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کئی شہروں میں ریلوے اسٹیشنوں کو آگ لگا دی ہے۔ بسیں جلا دی ہیں۔ پولیس سے تصادم میں 10 مظاہرین جاں بحق ہو گیے ہیں۔ کشمیر میں ایسے پر تشدد مظاہروں کے پیچھے Cross border دہشت گردی بتایا جاتا تھا۔ اور یہ الزام پاکستان کو دیتے تھے۔ دنیا کی توجہ یہ کہہ کر پاکستان کی طرف کر دی جاتی تھی۔ لیکن آج آ سام ، بہار اور دوسرے شہروں میں جو مناظر دیکھے جا رہے ہیں۔ دنیا کی توجہ ہندو انتہا پسندی اور مودی حکومت پر ہے۔ جو انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہے۔ مسلمانوں کا احتجاج صرف مسلمانوں کی شہریت کا قانون سوال نہیں ہے۔ بلکہ بھارت کا سیکو لر نظام اور پروگریسو جمہوریت کو بچانا ہے۔ بھارت میں اس وقت 20 کروڑ مسلمان ہیں۔ اور اس صدی کے اختتام تک یہ 30کروڑ ہوں گے۔ بھارت کی سلامتی سیکو لر اور پروگریسو جمہوریت میں ہے۔ ایک دن سیکھ بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مودی کے بھارت کی شہریت نہیں چاہتے ہیں۔ ایک نظام کا جب شیرازہ بکھرتا ہے تو یہ پھر بکھرتا چلا جاتا ہے۔ اور بھارت جیسے ملک کے لیے اسے سنبھالنا مشکل ہو گا۔
  بھارت کی 70سال کی تاریخ میں ہندو انتہا پسند جماعتیں تھیں۔ جنتا پارٹی میں بھی ہندو انتہا پسند تھے۔ جنتا پارٹی کئی مرتبہ اقتدار میں بھی آئی تھی۔ لیکن اس میں Common Sense قیادت نے ہمیشہ بھارت کے سیکو لر جمہوری نظام کو اہمیت دی تھی۔ اور اس نظام کو کبھی Up Set کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ انہوں نے بھارت کے سیکو لر جمہوری نظام میں رہتے ہوۓ حکومت کی تھی۔ گجرات میں مودی کی حکومت میں مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند ہندوؤں کے فسادات نے نریندر مودی کو ان کا ایک قابل اعتماد لیڈر بنایا تھا۔ خود مودی کا Background بھی ہندو انتہا پسند نظریاتی تھا۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ کی کمزور قیادت نے بھی مودی کو قومی سیاست کے اسٹیج پر آنے کا موقع دیا تھا۔ دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ جس کی حکومت میں مذہبی فسادات ہوتے ہیں۔ ہزاروں لوگ مارے جاتے ہیں۔ اور وہ قومی لیڈر بن جاتا ہے۔  اگر یہ لیڈر کسی اسلامی ملک کا ہوتا تو دنیا کا بر تاؤ اس کے ساتھ  مختلف ہوتا۔ شاید دنیا ایسے لیڈر کو کبھی قبول نہیں کرتی۔ بہرحال، بھارت پر اب ہندو انتہا پسندوں کا قبضہ ہے۔ مودی کو انہوں نے بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا ہے۔ اور مودی اب ان کے ایجنڈے کے مطابق بھارت کا سیاسی نقشہ تشکیل دے رہا ہے۔ کشمیر کو بھارت میں شامل کر لیا ہے۔ ہندو انتہا پسند کشمیری مسلمانوں کو وادی کشمیر چھوڑنے پر مجبور کریں گے۔ جیسے بعض اکثریتی مسلم ریاستوں سے رفتہ رفتہ مسلمانوں کی اکثریت ختم کی گئی تھی۔ مودی کو یہ بتایا گیا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں آ سام میں مسلمانوں کی اکثریت ہو جاۓ گی۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کشمیر کے بعد آ سام اور پھر بہار مسلمانوں کی اکثریتی ریاستیں بن جائیں گی۔
1970s   مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کے دوران بڑی تعداد میں بنگالی مسلمانوں نے آ سام میں پناہ لے لی تھی۔ یہ وزیر اعظم اندرا گاندھی تھیں۔ جنہوں نے مسلم بنگالی خاندانوں کو یہاں پناہ دی تھی۔ اور پھر اندرا گاندھی نے بنگالی مہاجرین کا بحران پیدا کر کے مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کی تھی۔ جنگ کی وجہ سے یہاں کی معیشت تقریباً تباہ ہو چکی تھی۔ بنگالی مہاجرین نے آ سام کو اپنا نیا گھر بنا لیا تھا۔ اس وقت سے یہ مسلم بنگالی یہاں آباد ہیں۔ 40سال میں ان کی تیسری اور چوتھی نسلیں یہاں پیدا ہوئی ہیں۔ اب یہ بھارت کے شہری ہیں۔ یہاں ان کی جائیدادیں ہیں۔ کاروبار ہیں۔ یہ مقامی حکومت میں ملازمتیں کرتے ہیں۔ آ سام  کے تعلیمی اداروں میں ٹیچر اور پروفیسر ہیں۔ آ سام کے بعد بہار میں بھی مسلم آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مشرقی بھارت کی Demography تبدیل ہو رہی ہے۔ ہندو انتہا پسند اس ابھرتی صورت حال سے خوفزدہ ہیں۔ اس صورت کا حل انہوں نے 'شہریت کا ایک نیا قانون نافذ کرنے میں دیکھا ہے۔ اس قانون کے تحت مسلمانوں کو بھارت کی شہریت نہیں دی جاۓ گی۔ حالانکہ 40سال بعد یہ مسلمان بھارت کے Natural citizens ہو گیے ہیں۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے انہیں انسانی بنیادوں پر پناہ دی تھی۔ 40سالوں میں کسی بھارتی حکومت نے انہیں واپس ان کے ملک میں بھیجنے کی پالیسی نہیں بنائی تھی۔ انہوں نے انتخابات میں آ سام اور بہار میں  پارلیمنٹ کے رکن منتخب کیے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کے ساتھ ان رکن پارلیمنٹ کی رکنیت بھی ختم کی جاۓ جو مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب ہوۓ ہیں۔
  یہ ایک المیہ ہے کہ بھارت جسے دنیا کی ایک بڑی جمہوریت ہونے کی مثال دی جاتی ہے۔ اب وہ بھارت لبرل اور پروگریسو جمہوریت سے 'طالبان ' کے نظام حکومت کو اختیار کر رہا ہے۔ سخت گیر طالبان اور سخت گیر ہندو انتہا پسندوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ صدیوں اور برسوں سے آباد مختلف مذہبی عقائد کے لوگوں کو شہریت دینے سے انکار اور انہیں ریاست کے تمام حقوق سے محروم کرنا جمہوریت نہیں ہے۔ یہ تحریک اسرائیل کی ہے۔ اسرائیل جسے بڑے فخر سے مشرق وسطی میں ایک واحد جمہوریت بتایا جاتا ہے۔ اسرائیل کی Knesset نے اس سال یہ قانون منظور کیا ہے کہ اسرائیل صرف Jewish State ہے۔ اور یہ صرف Jewish people کے لیے ہو گی۔ اسرائیل میں آباد عیسائی اور مسلمان دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔ اسرائیلی حکومت فلسطینی مسلمانوں اور عیسائوں کو آزادی دینا چاہتی ہے اور نہ ہی انہیں اسرائیل کی شہریت دینے کے لیے تیار ہے۔ وزیر اعظم مودی اور وزیر اعظم نتھن یا ہو کے درمیان تعلقات کی کیمسٹری ایک ہے۔ اس لیے یہ تعلقات بہت قریبی ہیں۔                                                                                                                                      
     

No comments:

Post a Comment