Friday, December 6, 2019

Middle East: Netanyahu’s Pro-War Israel, America’s Pro- Israel Policies, Arab Monarchs Arab People’s Enemy



  Middle East: Netanyahu’s Pro-War Israel, America’s Pro- Israel Policies, Arab Monarchs Arab People’s Enemy

The Results Are Chaos, Conflicts, Conflagration, Solution, More New Wars, Sale More Weapons, Send More American Troops
مجیب خان

Palestinian protesters clashed with Israeli forces

Anti-government  protest in Tehran, Iran

Demonstrators torched a bank in Tehran, Iran, Nov20,2019

Anti-government protests in Lebanon

Anti-government protests in Baghdad, Iraq, Nov21,201



   ویسے تو امریکہ کا مڈل ایسٹ کے عوام سے کبھی کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ نے عوام کو صرف اس وقت سپورٹ کیا ہے کہ جب ان کی حکومت امریکہ کی ناپسندیدہ حکومتوں کی فہرست میں ہوتی ہے۔ اور عوام حکومت کے خلاف سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔ انتہا پسند ہو جاتے ہیں۔ توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ سرکاری املاک تباہ کرتے ہیں۔ یعنی دہشت گردی کرنے لگتے ہیں۔ امریکہ نے انہیں سپورٹ کیا ہے۔ اور اسے آزادی کہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دہشت گردی اگر حکومت کے خلاف اور اس ملک کی سرحد کے اندر ہوتی ہے تو یہ جائز ہے۔ لیکن اس ملک کی سرحدوں سے باہر اسے انتہا پسندی اور دہشت گردی کہا جاتا ہے۔ جیسے شام میں حکومت کے خلاف انتہا پسندی اور دہشت گردی کو آزادی کی جد و جہد کہا تھا۔ آزادی کی جد و جہد نے شام کو Ground Zero کر دیا تھا۔ لیکن شام کی سرحدوں سے باہر اسے اسلامی دہشت گردی کہا جاتا تھا۔ صدر اوبامہ اور ان کے قریبی عرب اتحادیوں نے شام میں دہشت گردوں کی حمایت کی تھی۔ انہیں تربیت اور ہتھیار دئیے تھے۔ اسی طرح لیبیا میں اوبامہ انتظامیہ نے قد ا فی حکومت کے خلاف اسلامی انتہا پسندوں کی حمایت کی تھی۔ حالانکہ قد ا فی حکومت کی انٹیلی جینس کے اعلی حکام نے امریکہ کو اس سے آ گاہ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف اسلامی انتہا پسند ہیں جو لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ نے ان کی حمایت کی تھی۔ لیکن پھر قد ا فی حکومت کے زوال کے بعد اسلامی انتہا پسندوں نے جب لیبیا کی سرحدوں سے باہر اپنی اسلامی ریاست  پھیلانا شروع کیا تو اوبامہ انتظامیہ نے انہیں ISIS کے دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ اور ان پر ابھی تک ڈر ون سے حملے ہو رہے ہیں۔
  تین سال سے ٹرمپ انتظامیہ، اسرائیل اور سعودی عرب مڈل ایسٹ میں دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کرنے کا الزام ایران کو دے رہے تھے۔ ایران کو ہو تیوں کو اسلحہ دینے کا الزام دیتے تھے۔ ایران کو حزب اللہ اور حما س کی حمایت کرنے کا الزام دیتے تھے۔ ایران کو عراق اور شام میں مداخلت کرنے کا الزام دیتے تھے۔ اور اب ایران عراق لبنا ن میں مظاہروں اور فسادات پر سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے کہا ہے "مڈل ایسٹ میں ہونے والے احتجاجوں  کو منظم کرنے کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔" Pompeo نے کہا " عراق لبنا ن اور خود ایران میں مظاہرین ملاؤں کی حکومت کے خلاف ہیں۔" سیکرٹیری آف اسٹیٹ نے تاہم اعتراف کیا کا ان ملکوں میں شورش کی مختلف مقامی وجوہات ہیں۔ جو تیزی سے مڈل ایسٹ اور دوسرے علاقوں میں پھیلتی جا رہی ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے ایرانی مظاہرین کی حمایت کی ہے۔ جبکہ عراق اور لبنا ن میں مظاہروں پر ان ملکوں کی حکومتوں سے تحمل کا کہا ہے۔
  ایران میں حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 300فیصد اضافہ کیا تھا۔ جس پر ایرانی عوام چیخ پڑے تھے۔ یہ ان کی قوت خرید سے باہر تھا۔ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کے خلاف ایرانی عوام احتجاج کرنے سڑکوں پر آ گیے تھے۔ مظاہرین میں بیرونی ملکوں کے کچھ شر پسند عناصر بھی تھے۔ جنہوں نے پیٹرول پمپوں کو آگ  لگا دی تھی۔ عوامی املاک پر حملے کرنے لگے تھے۔ یہ مظاہرے ایران کے دوسرے شہروں میں بھی پھیل رہے تھے۔ ایرانی حکومت نے امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب کو مظاہروں کو دہشت گردی کی شہ دینے کا الزام دیا ہے۔ امریکہ کی ایرانی عوام کا گلا گھونٹنے والی اقتصادی بندشیں عوام کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔ سعودی اور اسرائیلی یہ دیکھ کر خوش ہیں کہ اب ایرانی حکومت جلد گرنے والی ہے۔ ان کے اختیار میں نہیں ہیں ورنہ یہ ایران میں ہوا اور پانی بھی بندشوں میں شامل کر دیتے۔ ایران پر امریکہ کی Unilateral Sanctions کی وجہ سے بنیادی انسانی ضروریات کی اشیا کی قلت ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج کے لیے دوائیں نہیں ہیں۔ یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ یہ بندشیں غیر معینہ مدت  تک لگی رہیں گی۔ اسرائیل نے 70 سال سے فلسطینی عوام کو بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم رکھا ہے۔ امریکہ نے 65سال سے کیوبا  کے عوام کو بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم رکھا ہے۔ 1990s میں عراق پر انسانی تاریخ کی انتہائی ظالمانہ اقتصادی بندشیں لگائی تھیں۔ 10سال میں عراق میں 5لاکھ بچے پیدائش کے ابتدائی دنوں میں مر گیے تھے۔ کیونکہ ہسپتالوں میں ان کی دیکھ بھال کرنے کی سہولتیں نہیں تھیں۔ اسی طرح  بے شمار معمر لوگ بھی دوائیں نہ ہونے کی وجہ سے مر گیے تھے۔ یہ بڑی طاقتوں کا Abused of Power تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کا گلا گھونٹنے والی اقتصادی بندشیں صرف اسرائیل کے کہنے پر لگائی ہیں۔ امریکہ کی قومی سلامتی کا ان بندشوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ امریکہ کی قومی سلامتی کو ایران کے ایٹمی پروگرام سے جو خطرہ تھا۔ اسے ایران کے ساتھ سابقہ انتظامیہ اور عالمی طاقتوں نے حل کر لیا تھا۔ ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام منجمد کر دیا تھا۔ آیت اللہ نے یہ فتوی دیا تھا کہ اسلام میں مہلک ہتھیار بنانا اور رکھنا ممنوع ہے۔ ایران نے سمجھوتے پر مکمل عملدرامد کیا تھا۔ لیکن ایکStubborn Netanyahu  کو Please کرنے کے لیے صدر ٹرمپ نے ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود ایران ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کو علیحدہ کر لیا اور ایران کے خلاف جنگ کا محاذ کھول دیا۔ اب امریکہ کو جنگ کا یہ نیا محاذ کھولنے کی کیا ضرورت تھی؟  مڈل ایسٹ میں ہر طرف امریکی فوجیں نئی جنگ کے انتظار میں مور چوں میں بیٹھی ہیں۔ گزشتہ برسوں میں مڈل ایسٹ پر مغربی صنعتی ملکوں کا انحصار تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ لیکن ہتھیاروں کی صنعت کو جب تک دنیا میں جنگوں کی نئی مارکیٹ نہیں ملے گی اس وقت تک ان کا مڈل ایسٹ پر انحصار رہے گا۔ تین امریکی بش، اوبامہ اور اب ٹرمپ انتظامیہ میں مڈل ایسٹ کو جنگوں کے لیے زر خیز رکھا ہے۔ ہر امریکی صدر نے یہاں ایک نئی جنگ دی ہے۔ امن کی روشنی نہیں پھیلائی ہے۔ صدر اوبامہ نے امن کا نوبل ایوارڈ لیا تھا۔ لیکن یہاں امن کے بجاۓ جنگ فروغ دی تھی۔ صدر کلنٹن آخری صدر تھے جنہوں نے مڈل ایسٹ میں امن فروغ دینے کی انتھک کوششیں کی تھیں۔ اوسلو معاہدہ پر عملدرامد کے اقدامات بھی ہوۓ تھے۔ کیمپ ڈیوڈ میں چیرمین یاسر عرفات اور وزیر اعظم ا ہو د بر اک میں ساری رات مذاکرات ہوۓ تھے۔ اس وقت تک صدر کلنٹن وہاں رہے۔ دونوں فریق سمجھوتے کے بہت قریب آ گیے لیکن پھر ذہین تبدیل ہو گیے اور سمجھوتہ نہیں ہو سکا تھا۔ صدر کلنٹن بڑے مایوس ہوۓ تھے۔ امریکہ میں 2000 کے صدارتی انتخابی مہم زوروں پر تھی۔ الگور کے مقابلے پر جارج بش صدارتی امیدوار تھے۔ جارج بش کے ایڈ وائزر  اسرائیل سے سمجھوتے پر دستخط نہیں کرنے کی اپیلیں کر رہے تھے کہ ہم اقتدار میں آئیں گے تو ایک بہتر ڈیل دیں گے۔ لیکن جارج بش  نے اقتدار میں آنے کے بعد مڈل ایسٹ کو جنگیں دی تھیں۔ اصولی طور پر صدر جارج بش کو اقتدار سنبھالنے کے بعد صدر کلنٹن نے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں میں امن مذاکرات جہاں چھوڑے تھے اسے وہاں سے آ گے بڑھانا چاہیے تھا۔ لیکن صدر جارج بش نے اس Peace Process کو Dump کر دیا تھا۔ اور ان کے ڈیڈی George H Bush دس سال قبل عراق جنگ جہاں چھوڑ کر گیے تھے۔ صدر بش وہاں سے اس جنگ کو لے کر آ گے بڑھے تھے۔ پھر صدر جارج بش عراق کو جہاں آدھا گلاس جنگ اور آدھا گلاس امن میں چھوڑ کر گیے تھے۔ صدر اوبامہ وہاں سے عراق آ گے لے کر بڑھے تھے۔ عراق کو آ گے لے کر بڑھنے کے میں راستے میں صدر اوبامہ نے 4 نئی جنگیں کرنا پڑی تھیں۔ صدر اوبامہ اب عراق کو وہاں چھوڑ کر گیے ہیں۔ جہاں صدر بش چھوڑ کر گیے تھے۔ اور صدر اوبامہ نے جو جنگیں چھوڑی ہیں انہیں اب کوئی Adopt کرنا نہیں چاہتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں جنگوں کی مخالفت کی تھی۔ عراق شام اور لیبیا میں بش اور اوبامہ کی Regime change wars کو دنیا کے لیےDisastrous  کہا تھا۔ صدر اوبامہ کے خیال میں عراق جنگ کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہوۓ تھے۔ انہیں صرف ایک نئی جنگ حل کر سکتی تھی۔ امید ہے، صدر ٹرمپ کی ایسی احمقانہ سوچ نہیں ہو گی کہ ایران میں ایک نئی جنگ مڈل ایسٹ کے تمام مسائل حل کر دے گی۔                        

No comments:

Post a Comment