Thursday, January 23, 2020

Conflicts in The Middle East: America can solve if there is a will, there is a way, as America has Political dialogue with the IRA, the world’s most dangerous terrorist army, today where is the IRA? Only political dialogue can change extreme views of Hezbollah, Hamas, and Iran. Half bread in the stomach and half-buried in under sanction is not the solution


  Conflicts in The Middle East: America can solve if there is a will, there is a way 

As America has
Political dialogue with the IRA, the world’s most dangerous terrorist army. Today where is the IRA? Only political dialogue can change extreme views of Hezbollah, Hamas, and Iran.

مجیب خان

      Hassan Nasrallah was raised in the impoverished East Beruit, where his father ran a small grocery store. In September 1997, his eldest son Muhammad Hadi was killed in battle with Israeli soldiers, after a Navy Commando operation 
in which 13 Israeli soldiers were killed in Jabal al-Rafei in the South of Lebanon

In November 2009, Hassan Nasrallah declared 'our problem with [Israelis] is not that they are Jews, but that they are occupiers who are raping our land and holy places 

On April 17, 2012, Hassan Nasrallah said 'that Israel was established based on occupying the lands of others,' he added, 'if I occupy your house by forcing it doesn't become mine in 50 or 100 years,' while Hezbollah doesn't want to kill anyone, the solution to the Israel-Palestinian conflict, he argued, was to establish  a democratic state on Palestinian land where Muslims, Jews, and Christians live in Peace but, that the US won't let people listen to Hezbollah  

    Sheik Ahmed Yassin was a founder member of Hamas, he was nearly blind, had used a wheelchair, he was assassinated by an Israeli helicopter fired Hellfire missiles, when he was being wheeled out of early morning prayer. Sheik Yassin had four brothers and two sisters. He and his family fled to Gaza, from a small village al- Jura, after his village was captured by Israel's Defence forces during the 1948 Arab-Israel war. Yassin came to Gaza as a refugee when he was 12 years old. After his assassination, now Sheik Yassin's children and grandchildren hate Israel and taking revenge of Sheik Yassin's assassination     

 
The Israeli destruction of Palestinian homes in West Bank

  مڈل ایسٹ میں امریکہ کے امن اور جنگ میں ناکام ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ امریکہ کی امن کوششیں Biased تھیں؟ جنگیں غلط ہیں؟ امریکہ کی مڈل ایسٹ کے بارے میں پالیسیاں غلط ہیں؟ فیصلے غلط ہیں؟ ترجیحات غلط ہیں؟ مڈل ایسٹ کے بارے میں امریکہ کی Understanding میں Defects ہیں؟ اصول غلط ہیں؟ قانون کی حکمرانی سے انحراف غلط ہے؟ مڈل ایسٹ کے 300 ملین لوگوں کے بنیادی حقوق کو Ignore کرنے کی پالیسی غلط ہے؟ Suppressed اور Deprived لوگوں کی آزادی کی جد و جہد کو Terrorism قرار دینے کی پالیسی غلط ہے؟ مڈل ایسٹ کے 300ملین لوگ بھی اسرائیل کے لوگوں کی طرح ہیں۔ جو اپنے بچوں اور خاندانوں کے لیے امن اور خوشحالی چاہتے ہیں۔ دنیا میں کون برسوں اور ہمیشہ جنگوں کے سیاہ ماحول میں رہنا پسند کرے گا۔ کبھی امریکہ کے کسی پریذیڈنٹ نے یہ سوچا ہے کہ مڈل ایسٹ میں اس گھٹن میں لوگ کس طرح رہتے ہوں گے۔ کس طرح سانس لیتے ہوں گے۔ ان پر ان کے اپنے ظالم حکمران اور ڈکٹیٹر مسلط ہیں۔ پھر ان پر اسرائیلی جارحیت اور اس کی فوج کی بربریت مسلط ہے۔ پھر ان کے دروازوں پر امریکہ کے طیارہ بردار بحری بیڑے ہتھیاروں سے مسلح کھڑے ہیں۔ ان کے سروں پر خوفناک ڈر ون منڈ لا رہے ہیں۔ ان کے حکمران انہیں مار رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج انہیں مار رہی ہے۔ امریکہ انہیں مار رہا ہے۔ دہشت گرد بھی انہیں مار رہے ہیں۔ ایسے حالات میں امریکہ برطانیہ فرانس جرمنی اور یورپ کے لوگ کیا کریں گے؟ جس طرح امریکہ میں لوگ Gun violence سے تنگ ہیں۔ اسی طرح مڈل ایسٹ میں لوگ ظالم حکم رانوں، ڈکٹیٹروں، اسرائیلی فاشزم اور ان کی سرزمین پر امریکہ کی Military Might سے سخت بیزار ہیں۔ 70 سال سے اسرائیل کی جنگی پالیسیوں کے وہ قیدی بنے ہوۓ ہیں۔ 10سال سے نتھن یا ہو حکومت Nonstop فلسطینیوں کو مار رہی ہے۔ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ لبنا ن میں حزب اللہ پر بھی میزائلوں کے حملے ہو رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت نے 2019 میں 189  لوگوں کے گلے کاٹے تھے۔ 37 لوگوں کے گلے صرف ایک روز میں کاٹے تھے۔ جسے سعودی حکومت موت کی سزائیں کہتی ہے۔ مصر میں آزادی اور جمہوریت کے مطالبے کرنے والوں سے جیلیں بھر گئی ہیں۔ جیلوں میں انہیں اذیتیں دی جاتی ہیں۔ فوجی حکومت نے 900 مصریوں کو موت کی سزائیں سنائی ہیں۔ مصری عوام کے پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مر سی نظری بندی کے دوران مر گیے۔ امریکی کانگرس نے مصر کی فوجی حکومت کو 2بلین ڈالر امداد دینے کا بل منظور کیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف امریکی کانگرس نے ہانگ کانگ  میں جمہوریت اور آزادی کے لیے مظاہرے کرنے والوں کی حمایت میں قرار داد منظور کی ہے۔ اور مظاہرین کے خلاف طاقت استعمال کرنے پر ٹرمپ انتظامیہ سے چین پر بندشیں لگانے کا کہا ہے۔ ایران میں حکومت کے خلاف مظاہروں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ اسرائیل میں حکومت کے خلاف فلسطینیوں کے مظاہروں کو بالکل Blackout کر دیا جاتا ہے۔
  عراق میں صد ام حسین  سنی صدر تھے۔ ان کے نائب صدر اور وزیر خارجہ Christian طارق عزیز تھے۔ صد ام حسین کی فوج میں جنرل شیعہ تھے۔ ان کی کابینہ میں اور حکومت کے محکموں میں Sunni, Christian, Shi’ite  تھے۔ لیکن امریکہ کو عراق میں یہ پسند نہیں تھا کہ سنی، شیعہ اور عیسائی کیوں متحد تھے۔ صدر بش نے صد ام حسین کی حکومت ختم کر دی۔ اور اس کی جگہ بغداد میں اپنا ایک ایسا نظام رائج کر دیا جس میں مذاہب آپس میں لڑتے رہیں۔ امریکی فوجیں  بغداد میں بیٹھی رہیں۔ اور ان کے درمیان لڑائی Out of control ہونے پر مداخلت کرتی رہیں۔
  امریکہ کو شام میں جہاں سنیوں کی اکثریت ہے۔ اور ایک شیعہ بشر السد صدر ہے۔ اس کی حکومت میں Sunni اور Christians بھی تھے۔ یہ فوج میں بھی تھے۔ اور یہ سب بڑی بہادری سے لڑے ہیں۔ انہوں نے اپنی حکومت بچائی ہے۔ اپنا ملک بچایا ہے۔ اور دہشت گردوں کو شکست دی ہے۔ جن کی پشت پر امریکہ، یورپی ملک، سعودی عرب اور خلیج کے دولت حکمران تھے۔ ان کا مشن شام میں سنیوں کی حکومت قائم کرنا تھا۔ کیونکہ امریکہ نے عراق میں شیعاؤں کو حکومت دی تھی۔ جو وہاں اکثریت میں تھے۔ دنیا کے امن اور استحکام کی ذمہ دار یاں امریکہ کے حوالے کر کے عالمی برادری نے ایک بڑی حماقت کی ہے۔ مصر میں سعودی عرب، خلیج کے حکمرانوں اور اسرائیل نے ایک منتخب جمہوری حکومت ختم کی تھی۔ اور وہاں فوجی آمریت بحال کی تھی۔ اب یہ ملک شام میں صدر اسد کی آمرانہ حکومت ختم کرنے میں باغیوں کی مدد کر رہے تھے۔ اور ان کے کمانڈ انچیف صدر برا ک ا و با مہ تھے۔ یہ اتحاد اسد حکومت کو نہیں ہلا سکا تھا۔ لیکن اس اتحاد نے شام کے لاکھوں خاندان تباہ کر دئیے تھے۔ شام Ground Zero کر دیا تھا۔ اسرائیل کے ہمسایہ میں یہ بھی ایک Holocaust تھا۔ ایک لاکھ بے گناہ شامی شام کو سنی ریاست بنانے کی جنگ میں مارے گیے تھے۔ صدر جارج بش کے آٹھ سال دور میں مڈل ایسٹ میں پرانے تنازعہ میں نئے تنازعوں کا اضافہ کرنے کی پالیسی فروغ دی گئی تھی۔ صدر ا وبا مہ نے اس پالیسی کو تبدیل نہیں کیا تھا۔ دنیا کے لیے لیبیا  شام اور یمن نئے تنازعہ بنا دئیے تھے۔
  سعودی عرب نے حما س، حزب اللہ، اور Brother hood کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیا ہے۔ امریکہ نے بھی ان تنظیموں کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ اسرائیل بہت عرصہ سے ان تنظیموں کو دہشت گرد کہہ رہا تھا۔ لبنا ن میں 15سال (1975-1990) خانہ جنگی کے بعد جس میں ڈیڑھ لاکھ لبنانی مارے گیے تھے۔ لبنا ن میں Christians اکثریت میں ہیں۔ Sunni دوسری بڑی تعداد میں ہیں۔ ان کے بعد Shia ہیں۔ ان فرقوں میں سیاسی سمجھوتہ کے مطابق پریذیڈنٹ Christian ہو گا۔ وزیر اعظم Sunni اور اسپیکر پارلیمنٹ Shia ہو گا۔ اور ان سب نے لبنا ن کی سلامتی اور بقا کے لیے متحد ہو کر کام کرنے کا عہد کیا تھا۔ لبنا ن میں آزادی ہے۔ جمہوریت ہے۔ انتخابات ہوتے ہیں۔ عوام ووٹ دیتے ہیں۔ عوام کے نمائندے منتخب ہوتے ہیں اور پھر حکومت بناتے ہیں۔ حزب اللہ اس جمہوری سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ اسرائیل سے زیادہ جمہوریت لبنا ن میں ہیں۔ جہاں ریاست کے تمام مذہبی فرقہ سیاسی عمل میں برابر کے شریک ہیں۔ اسرائیل میں آزادی اور جمہوریت صرف یہودیوں کے لیے ہے۔ Christian اور Muslim فلسطینی جو اسرائیل کے شہری ہیں انہیں اسرائیل کے سیاسی عمل سے دور رکھا جاتا ہے۔ شیعہ زیادہ تر لبنا ن کے جنوب میں ہیں۔ عرب دنیا میں حزب اللہ واحد پارٹی ہے جس نے اسرائیل کو شکست دی ہے۔ اور اس کے قبضہ سے جنوبی لبنا ن اور وادی بکا آزاد کر آۓ تھے۔ اور صرف اس لیے حزب اللہ لبنا ن کے عوام کی مقبول جماعت ہے۔ گزشتہ انتخاب میں 60فیصد لبنا نیو ں نے حزب اللہ کو ووٹ دئیے تھے۔ پارلیمنٹ میں حزب اللہ ان کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ لبنا ن کا جمہوری سیاسی نظام ہے جس کی وجہ سے لبنا ن میں سیاسی استحکام تھا۔ لیکن اسرائیل کو لبنا ن کے سیاسی استحکام میں حزب اللہ کا رول پسند نہیں ہے۔ حزب اللہ نے اسرائیل سے جنگ لڑی تھی اور لبنا ن کے علاقہ آزاد کراۓ تھے۔ اس لیے اسرائیل حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم کہتا ہے۔ لبنا ن میں حزب اللہ کے بارے میں امریکہ کا Independent موقف ہونے کے بجاۓ۔ امریکہ نے اسرائیل کا موقف اختیار کیا ہے۔ اور حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لبنا ن سیاسی عدم استحکام میں آ گیا۔ بیر و ت کی سڑکوں پر فسادات 1970s کے مناظر Refresh کرنے لگے۔ امریکہ اگر اسرائیل اور سعودی عرب کی پالیسیوں پر made in America’ کے لیبل لگا کر مڈل ایسٹ میں امن لانے کی کوشش کرے گا۔ تو نتائج جنگیں ہوں گی۔
  مڈل ایسٹ میں انتہا پسندی اور دہشت گرد گروپوں کی سیاست ختم ہو سکتی ہے۔ اگر امریکہ کا “There is a will, there is a  way” میں یقین ہے۔ Irish Republican Army حزب اللہ اور حما س سے زیادہ خوفناک دہشت گرد تنظیم تھی۔ برطانیہ کے لوگ لندن میں IRA کے Good Friday massacre کو شاید کبھی نہیں بھولیں گے۔ لیکن آج IRA کہاں ہے؟ امریکہ نے IRA  سے سیاسی مذاکرات کیے تھے۔ شمالی آئر لینڈ، برطانیہ اور IRA میں جنگ بندی کرائی تھی۔ آخر کار تنازعہ میں ملوث پارٹیوں میں سمجھوتہ ہو گیا۔ IRA کو Political Process میں شامل کیا گیا۔ IRA کے سخت گیر عناصر آج بھی آئر لینڈ میں ہیں۔ لیکن اب ان کی سوچ سخت گیر نہیں ہے۔ سیاسی عمل نے ان کی سوچ بدل دی ہے۔ آئر لینڈ آج پرامن ہے۔ اقتصادی ترقی میں آئرلینڈ آج برطانیہ سے آ گے ہے۔ مڈل ایسٹ میں بھی اس Model کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔  war, murders, killing, assassination, Drone, sanctions تنازعوں کے حل نہیں ہیں۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ اپنے Civilize ہونے کی پٹری سے اتر گیا ہے۔ اور طالبان کے معیار کی Civilize پر آ گیا ہے۔ مڈل ایسٹ میں Justice کہیں نظر نہیں آتا ہے۔ یہ امریکہ اور مغربی ملکوں کی مڈل ایسٹ کے بارے میں پالیسیوں میں بھی نہیں ہے۔ ہر طرف Injustice dominate کر رہا ہے۔ اور جب Injustice بہت بڑھ جاتا ہے تو جنگیں ہوتی ہیں۔ عالمی اقوام کے لیے یہ بڑا مسئلہ ہے۔              


No comments:

Post a Comment