Friday, January 3, 2020

Two Decades of the 21st Century: Pre-emptive Wars, Target Killings, Human Destruction, No Peace, No Rule of Law, No Justice, Extra-Judicial Killing, Violations of Human Rights, No Human Progress, No Democracy, Authoritarianism is on the Rise; This is End of the Second Decade of The 21st Century


Two Decades of the 21st Century: Pre-emptive Wars, Target Killings, Human Destruction, No Peace, No Rule of Law, No Justice, Extra-Judicial Killing, Violations of Human Rights, No Human Progress, No Democracy, Authoritarianism is on the Rise; This is End of the Second Decade of The 21st Century  

When in Egypt, Saudi Arabia and Israel dismantled a newly built democratic System and installed a military dictator’s rule. Late Saudi King Abdullah gave $20Billion to the dictator and challenged America to match $20Billion to reinstate democracy in Egypt. America didn’t have $20Billion to defend its democratic and human rights values. But America was borrowing billions and billions of Dollars, buying $100Million Drone, dropping $10Million missile on innocent people, but America didn’t have money to defend its core values of democracy and human rights, now America talking about human rights and democracy in China, but what about “Uighurs” of the West Bank and Hong Kong in Gaza, deprive human rights and freedom for the last seventy years

مجیب خان



Make the 21st Century, killing Century of King David 


  اکیسویں [21] صدی کی پہلی دو دہائیاں انسانی تباہیوں اور ہلاکتوں میں گزری ہیں۔ جنگوں کے زہریلے دھوئیں اور مہلک ہتھیاروں کا استعمال Environment کے لیے Global warning سے زیادہ بڑا خطرہ بن رہا ہے۔ جن ملکوں کے خلاف Preemptive حملے کیے گیے ہیں۔ ان ملکوں میں فضا اور پانی آلودہ ہو گیے ہیں۔ جن کے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے زیادہ خطرناک نتائج جو بچے پیدا ہو رہے ان میں دیکھے جا رہے ہیں۔ ان معاشروں میں طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں پر نا ختم ہونے والی جنگوں کے اثرات مہلک تابکاری اثرات سے کم خطرناک نہیں ہیں۔ 21ویں صدی کے پہلے 16سال میں Human Progress میں اتنے کام نہیں ہوۓ ہیں کہ جتنے Human destruction کی جنگیں فروغ دی گئی ہیں۔ نیو کلیر ہتھیاروں کے استعمال کی بجاۓ Drone سے بے گناہ انسانوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ یہ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد 21ویں صدی کی پہلی 2دہائیوں کی دنیا کی 'آزادی اور جمہوریت' کا نقشہ ہے۔ امریکہ میں 21ویں صدی کی پہلی دہائی کے آغاز پر Rig Election ہوۓ تھے۔ جو عالمی امن، آزادی جمہوریت اور Rule of law کے لیے Bad luck ثابت ہوۓ ہیں۔ تاہم 21ویں صدی کی دوسری دہائی کی آخری سہ ماہی میں کوئی نئی جنگ نہیں ہوئی ہے۔ دنیا کے دو خطہ جنگ کے منہ سے نکل آۓ ہیں۔ ورنہ یہاں انسانی تباہی کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ خلیج میں ایران کے خلاف اور لا طین امریکہ میں ونزویلا  میں Regime change wars اس طرح پھیلتی کہ جیسے کیلیفورنیا میں آگ پھیلتی  ہے۔ اور بستیاں کی بستیاں تباہ کر دیتی ہے۔ صدر Nicolas Maduro کا انجام معمر قد ا فی یا صد ام حسین جیسا ہوتا۔ John Bolton  صرف اس مقصد کے لیے قومی سلامتی امور کے مشیر بنے تھے۔ John Bolton کے warmonger views پر صدر ٹرمپ نے کئی مرتبہ بر یک لگاۓ تھے۔ ایک موقعہ پر John Bolton نے طیارہ بردار بیڑے خلیج میں جانے کا حکم دے دیا تھا۔ اور یہ نظر آ ر ہا تھا کہ ایران پر حملہ ہونے والا تھا۔ سعودی عرب میں آئل تنصیبات پر میزائل حملے کے بعد ایران کے خلاف فوجی کاروائی یقینی نظر آ رہی تھی۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے یہ حملہ ہونے کے چند گھنٹوں میں کہا کہ یہ ایران نے کیا تھا۔ سعودی حکومت نے بھی اسے ایران کا حملہ بتایا تھا۔ لیکن اب اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل نے سلامتی کونسل کو تحقیقات کے بعد یہ رپورٹ دی ہے کہ سعودی آئل تنصیبات پر میزائل حملہ میں ایران کے ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہیں۔ اور جو میزائل استعمال ہوۓ تھے وہ بھی ایران کے نہیں تھے۔ کم از کم 16 سال بعد یہ ایک اچھی تبدیلی آئی ہے کہ عالمی برادری ایران کے بارے میں امریکہ کے دعووں پر یقین نہیں کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل نے جو تحقیقاتی رپورٹ دنیا کو دی ہے۔ دنیا اب اس پر یقین کرتی ہے۔ عالمی برادری نے ایک مرتبہ یہ غلطی کی تھی کہ عراق کے بارے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل کوفی عنان نے انہیں جو رپورٹیں دی تھیں۔ ان پر یقین کرنے کے بجاۓ بش انتظامیہ دنیا کو جو بتاتی تھی اس پر یقین کیا تھا۔ اور جو بعد میں سب جھوٹ نکلا تھا۔ لیکن ان جھوٹ کے نتیجہ میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گیے تھے۔ انسانی تباہی بھی بڑے پیمانے پر ہوئی تھی۔ خاندان برباد ہو گیے تھے۔ Warmongers نے 21ویں صدی کو Killing Century بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
  دو سال سے ایران کے خلاف یہ مہم تھی کہ  سعودی عرب کے ساتھ جنگ میں ایران شیعہ ہوتیوں کی پشت پنا ہی کر رہا تھا۔ انہیں ہتھیار اور میزائل فراہم کر رہا تھا۔ لیکن یہ نہیں بتایا جاتا تھا کہ سعودی عرب نے یمن پر حملہ کیوں کیا تھا؟ سعودی عرب نے یمن کے اندرونی معاملات میں اپنی ٹانگ کیوں اڑائی تھی۔ اس وقت ایرانی تو یمن میں ہوتیوں کے ساتھ نہیں بیٹھے تھے۔ یمن میں شیعہ سنی نہیں کر رہے تھے۔ سعودی اگر یمن کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے تو ہوتی سعودی عرب سے جنگ کیوں کرتے؟ سعودی عرب کے خلاف جب Genocide، جنگی کرائم کرنے، بے گناہ یمنیوں کو مارنے کی آوازیں اٹھنی لگی تو سعودی عرب نے ہوتیوں سے بات چیت کر کے جنگ بندی کا سمجھوتہ کر لیا۔ اب سعود یوں کے ساتھ ہوتیوں کے مذاکرات میں کیا ایرانی ہوتیوں کی Coaching کر رہے تھے؟ Warmongers کی Regime change مہم جاری ہے۔ عراقی ملیشیا عراقیوں کی ہے۔ عراق میں عراقیوں کی حکومت ہے۔ امریکہ نے عراقی فوج تربیت دی ہے۔ سیکورٹی فورس بھی تربیت دی ہے۔ عراق میں امریکہ کی فوجیں بھی ہیں۔ امریکہ نے دنیا کا سب سے بڑا سفارت خانہ بھی عراق میں اپنے  فوجی قبضہ کے دوران تعمیر کیا تھا۔ پھر ایران کے اعتراف امریکہ کے فوجی اڈوں نے ایران کو گھیرا ہوا ہے۔ پھر ایران پر امریکہ کی خوفناک اقتصادی بندشیں بھی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایران کو مڈل ایسٹ میں تمام بیماریوں کا الزام دیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل خطہ میں کسی ملک کے ساتھ ایران کے تعلقات دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ امریکہ میں ایران  کے خلاف ایسا ہی جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ جیسے عراق کے بارے میں جھوٹ بولا گیا تھا۔ امریکی میڈیا نے اصل Facts عراق کے بارے میں چھپاۓ تھے۔ اور اب ایران کے بارے میں بھی Facts نہیں بتاۓ جا رہے ہیں۔ اور حالات کو ایک نئی جنگ کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔
  عراق میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز عراقی حکومت میں کرپشن، بیروزگاری اور ایران کے  Influence کے خلاف شروع ہوا تھا۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے یہ بیان دیا تھا کہ "عراق، لبنا ن اور خود ایران میں مظاہرے   Clerical Regimeکے خلاف ہیں۔ یہ حقیقت لبنا ن میں بیر و ت میں مظاہروں میں نظر آ رہی ہے۔ وہ حزب اللہ اور ایران کو اپنے ملک اور اپنے نظام سے باہر چاہتے ہیں۔ جیسا کہ یہ پر تشدد اور ایک استیصال قوت ہیں۔"  سیکرٹیری آف اسٹیٹ نے کہا " ایران میں مظاہروں میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ 2سو سے زیادہ لوگ مارے گیے ہیں۔ اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی بھی Fed up  تھے۔" تاہم ایران کی حکومت نے مظاہروں کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ بتایا تھا۔ لیکن پریذیڈنٹ ٹرمپ نے عراق میں مظاہروں کے پیچھے جنہوں نے امریکی سفارت خانہ پر دھاوا بولا تھا ایران کا ہاتھ بتایا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس واقع میں امریکہ میں کسی کو ISIS پر کوئی شبہ نہیں ہے۔ کچھ دن قبل امریکہ میں یہ خبریں سنائی جا رہی تھیں کہ عراق اور شام میں ISIS پھر ابھر رہی ہے۔ یہ ISIS دراصل اسرائیل سعودی عرب اور امریکہ نے اسلامی دنیا کو 50برس جنگوں میں رکھنے کے مقاصد سے بنائی ہے۔ کبھی اس کو غائب کر دیا جاتا ہے۔ کچھ ماہ بعد پھر اس کے ابھرنے کا بتایا جاتا ہے۔ امریکہ میں دنیا میں سب کو الزام دیا جاتا ہے۔ لیکن امریکہ نے کبھی اپنے کو الزام نہیں دیا کہ اس کے غلط فیصلوں سے دنیا کو کتنی اذیتوں کا سامنا ہو رہا ہے۔ کتنے بے گناہ لوگ مارے گیے ہیں۔ کتنے ملک کھنڈرات بن گیے ہیں۔ کسی کو اس پر کو ئی Remorse نہیں ہے۔
  مڈل ایسٹ کے حالات خراب کرنے اور ایران کے خلاف Artificial war شروع کرنے کے ذمہ دار ڈونالڈ ٹرمپ اور بینجمن نتھن یا ہو ہیں۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ نے بینجمن نتھن یا ہو اور امریکہ میں ان کے حامیوں کو خوش کرنے کے لیے ایران کا ایٹمی معاہدہ ختم کر کے مڈل ایسٹ کو Third World War کے قریب پہنچا دیا ہے۔ عرب اسلامی خطہ میں ہر امریکی صدر سرد جنگ ختم ہونے کے بعد سے صرف Blunders کر رہا ہے۔ اور جنگوں کے حالات پیدا کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں ایسے Blunder نہ کرنے اور امریکہ کو مڈل ایسٹ کی جنگوں سے دور رکھنے کا امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا۔ لیکن صدر ٹرمپ نے اسرائیل سے جو وعدہ کیے تھے وہ پورے کیے ہیں۔ لیکن عرب اسلامی ملکوں کے خطہ میں جنگیں ختم کرنے کا وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔ امریکہ کا مفاد اسرائیل اور سعودی عرب ہیں؟ یا امریکہ کا مفاد امریکہ ہے؟ اسرائیل اور سعودی عرب کے مفادات کا دفاع کرنے سے امریکہ کی عالمی ساکھ خراب ہو گئی ہے۔ امریکہ نے آج ایران کے جنرل کو ہلاک کیا ہے۔ کل امریکہ شمالی کوریا کے جنرل کو بھی ہلاک کر سکتا ہے۔ Kim Jung Un کو اس نئی خطرناک صورت حال پر بھی غور کرنا ہو گا۔ ایران کے ایٹمی سمجھوتہ کے یہ نقصانات امریکہ کے لیے ہیں جبکہ اسرائیل کے لیے یہ فائدے ہیں۔ امریکہ اگر ایران ایٹمی سمجھوتہ کو برقرار رکھتا تو امریکہ عراق کو جیت سکتا تھا۔ عراق کا استحکام ایران کے مفاد میں تھا۔ ایران شام میں استحکام کی کوششوں میں روس اور ترکی کے ساتھ شامل ہے۔ ایران کے خلاف اسرائیل سعودی عرب اور امریکہ کے انتہائی Hostile Propaganda کے باوجود ایران نے ISIS سے لڑائی میں عراق اور شام کی مدد کی ہے۔ ایران کے فوجی بھی مارے گیے ہیں۔ لیکن امریکہ سعودی عرب اور اسرائیل کو ایران سے اس قدر نفرت ہے کہ یہ ISIS کے خلاف لڑائی میں ایران کی قربانیوں کا Acknowledge کرنا بھی پسند نہیں کرتے ہیں۔ یہ ان کی کم تری ہے۔ صدر ٹرمپ اور سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo ذرا Reasoning دیں کہ ایران کا اپنے ہمسایہ کو Destabilize کرنے میں کیا Interest ہو سکتا ہے؟ Nonsense الزامات Nonsense ہوتے ہیں۔ اعلی عہدوں پر معمور لوگوں کی ان باتوں پر اٹا رنی جنرل  William Barr  کو یہ کہنا پڑا ہے کہ “America Is Going to Hell”            

No comments:

Post a Comment