Meddling in The Elections, Who Benefited the
Most? America’s Relations with Russia
are where the Obama administration has left them, not changed
مجیب خان
ٹرمپ انتظامیہ
کو 18 ماہ صرف اس دباؤ میں رکھا تھا کہ 2016 کے انتخابات میں روس نے Meddling کی تھی۔ روس کی Meddling کا مقصد کیا تھا؟
ڈونالڈ ٹرمپ میں روس کی کیا اتنی دلچسپی تھی؟ 18ماہ تک یہ تحقیقات ہوتی رہی۔ تحقیقات
کے دوران ٹرمپ انتخابی مہم کمیٹی میں شامل بعض لوگوں کے پنڈرا با کس کھلنے پر جو
ذاتی نوعیت کے تھے۔ انہیں سزائیں ہوئی تھیں۔ اور وہ جیلوں میں ہیں۔ لیکن روس کی Meddling اور Collusion کے کوئی چوکا دینے والے انکشاف
سامنے نہیں آۓ تھے۔ Mueller رپورٹ میں ٹرمپ
انتخابی کمیٹی کے George Papadopoulos کو
اسرائیل کا ایجنٹ بتایا تھا۔ جو ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی کمیٹی میں امریکہ کی
سیکورٹی اور خارجہ امور کے Adviser تھے۔ Papadopoulos نے
اپنی ذاتی حیثیت میں نچلی سطح کے بعض روسیوں سے رابطے کیے تھے۔ اور Papadopoulos نے ان سے ہلری کلنٹن پر Dirt اچھالنے کی بات کی تھی۔ لیکن ڈونالڈ
ٹرمپ کا ان کی اس گفتگو سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا تھا۔ Papadopoulos کو صرف دو ہفتے جیل کی سزا ہوئی
تھی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف اسرائیل کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔
وزیر اعظم نتھن یا ہو ہلری کلنٹن کے خلاف تھے۔ اگر وہ پریذیڈنٹ بن جاتیں تو ایران
کے خلاف اسرائیل کا منصوبہ دھرا رہے جاتا۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ نے اسرائیل کو سارا فلسطین دے دیا
ہے۔ پریذیڈنٹ ہلری کلنٹن انتظامیہ میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر کے یہ اسرائیل
کو اس طرح نہیں دیا جاتا۔ امریکہ میں یہ ایک عام تاثر ہے کہ جو Congressman اور Senators اسرائیل کے مفاد کے خلاف بات کرتے ہیں وہ دوبارہ منتخب نہیں ہو
سکتے ہیں۔ اسرائیل نے ٹرمپ انتظامیہ میں سب سے زیادہ اپنے مقاصد حاصل کیے ہیں۔ اگر
ڈونالڈ ٹرمپ انتخاب ہار جاتے اور ہلری کلنٹن انتخاب جیت جاتیں تو پھر روس کی Meddling پر کیا کہا جاتا؟
انٹیلی جینس ادارے عوام میں اپنی Credibility کھو چکے ہیں۔ عراق میں مہلک
ہتھیاروں کے بارے میں انہوں نے جو رپورٹیں دی تھیں وہ سب جھوٹ ثابت ہوئی تھیں۔ جھوٹی
رپورٹوں کی بنیاد پر ایک غلط جنگ میں ہزاروں امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوۓ تھے۔ لاکھوں
عراقی خاندان تباہ ہو گیے تھے۔ ایک ٹیریلین ڈالر اس جنگ پر برباد ہوۓ تھے۔ امریکہ
کے جن اتحادیوں نے اپنی فوجیں عراق میں بھیجی تھیں۔ ان کے فوجی بھی عراق میں مارے
گیے تھے۔ امریکہ کی وجہ سے اتحادی ملکوں کی حکومتیں مشکل میں آ گئی تھیں۔ ان کے
شہری حکومت سے سوال کرنے لگے تھے کہ عراق سے ان کے ملک کو کیا خطرہ تھا۔ عراق سے ہماری
کیا لڑائی تھی۔ حکومت نے ہماری فوجیں عراق کیوں بھیجی تھیں؟ فوجی جنرل اگر جھوٹی
رپورٹ پر جنگ کرتے تو ان کا کورٹ مارشل ہوتا۔ لیکن 16 انٹیلی جینس اداروں سے کوئی
پوچھ گچھ نہیں ہوئی تھی۔ اعلی انٹیلی جینس حکام جیسے Accountability سے Immune تھے۔ بلکہ پریذیڈنٹ بش نے سی آئی
اے ڈائریکٹر کو امریکہ کا سب سے بڑا اعزاز دیا تھا۔ اور ان کی خدمات کو سراہا یا
تھا۔ لیکن یہ سی آئی اے تھی جسے 1999-2000 میں القا عدہ کے لیڈروں کو پکڑنے کے بہت
سے موقع ملے تھے۔ لیکن انہوں نے کوئی کاروائی نہیں کی تھی جیسے وہ 9/11 کا انتظار کر رہے تھے۔ جب انٹیلی
جینس اداروں کی کارکردگی Dubious ہو گی۔ لوگوں
کو انٹیلی جینس اداروں پر اعتماد نہیں ہے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ اگر انٹیلی جینس اداروں
کی نہیں سنتے ہیں تو امریکی عوام پریذیڈنٹ ٹرمپ کو Blame نہیں دیں گے۔
ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار
کے لیے Primaries کے
آغاز پر انٹیلی جینس اداروں کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ روس 2020 کے صدارتی انتخاب میں Meddling کر رہا ہے۔ اور کہا ہے کہ 'روس Senator Bernie Sanders کی انتخابی مہم
میں مدد کر رہا ہے۔' لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انٹیلی جینس کے اعلی حکام کو ابھی
تک یہ معلوم نہیں ہے کہ ISIS کی کون مدد کر
رہا تھا۔ کس ملک کی سرزمین پر ISIS کو منظم کیا گیا تھا۔ کس ملک نے فنڈنگ کی تھی۔ ایک ہزار Toyota Trucks کے آ ڈر کس نے دئیے تھے۔ انٹیلی
جینس اداروں کے سربراہ امریکی عوام کو اس بارے میں کچھ نہیں بتاتے ہیں۔ اس لیے
امریکی عوام بھی روس کی Meddling کے بارے میں
انٹیلی جینس کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔ انٹیلی جینس کی مسلسل ناکامیوں پر
سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ پھر دوسروں کو الزام دینے لگتے ہیں۔
امریکہ تیسری دنیا کے ملکوں میں
مداخلت کرتا تھا اور اپنے لیڈر اقتدار میں لاتا تھا۔ پھر ان سے اپنی خارجہ اور ڈیفنس
پالیسی کے مفاد میں کام لیتا تھا۔ لیکن روس امریکہ کے انتخابات میں کیوں مداخلت
کرے گا؟ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے ساڑھے تین سال میں روس نے کیا حاصل کیا ہے۔ امریکہ کے
ساتھ تعلقات میں روس کو پریذیڈنٹ ا و با مہ جہاں چھوڑ کر گیے تھے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ
کے ساڑھے تین سال میں بھی روس امریکہ کے ساتھ تعلقات میں اسی مقام پر ہے۔ روس کی Meddling کا شور بہت ہے۔ پریذیڈنٹ
پو تن نے یہ درست کہا ہے کہ یہ Russian Jews ہیں جو سرد جنگ میں اسرائیل چلے گیے تھے۔ اور انہوں
نے 2016 کے انتخابات میں Meddling کی ہے۔ ویسے بھی امریکہ میں
اسرائیلی Influence کسی سے ڈھکا
چھپا نہیں ہے۔ بلکہ یہ Ukrainian
Jews بھی ہو سکتے ہیں جو فلو ریڈ ا اور اسرائیل میں رہتے ہیں۔ Ukrainian اور Russian فلسطینی علاقوں میں Settlers ہیں۔ اور پریذیڈنٹ ٹرمپ کے Peace Plan میں Settlements کو قانونی تسلیم کیا ہے۔
پریذیڈنٹ جارج بش کا پریذیڈنٹ پو تن
سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں Impression تھا ;
President Bush “I looked the
man in the eye. I found him to be very straightforward and
Trustworthy. We had a very
good dialogue. I was able to get a sense of his soul; a man deeply committed to
his country and the best interests of his country.”
And the first impression is the
last impression.
پریذیڈنٹ پو تن نے پریذیڈنٹ ٹرمپ سے یہ سچ کہا تھا کہ روس امریکہ کے انتخابات
میں کیوں مداخلت کرے گا۔ امریکہ کوئی Banana Republic نہیں ہے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے ذہن میں، پریذیڈنٹ بش نے پریذیڈنٹ پو
تن کے بارے میں جس تاثر کا اظہار کیا تھا وہ تھا۔ لہذا پریذیڈنٹ ٹرمپ نے کہا کہ
پریذیڈنٹ پو تن نے جو کہا ہے وہ اس پر یقین کرتے ہیں کہ روس امریکہ کے انتخابات
میں کیوں Meddling کرے گا۔
2016 کے انتخابات میں روس کی Meddling کا ایک مقصد یہ بھی بتایا جاتا ہے
کہ نیٹو اتحاد کو تقسیم کرنا تھا۔ لیکن حقیقت میں یہ صدر جارج بش کی War Policy تھی جس نے نیٹو اتحاد میں
اختلافات پیدا کیے تھے۔ اور بلا آخر اس میں تقسیم شروع ہو گئی تھی۔ مشرقی یورپ کے ملکوں کی نیٹو میں شمولیت کے بعد افغان جنگ ان
کی پہلی جنگ تھی۔ اس جنگ میں جب ان کے فوجی مرنے لگے تھے۔ لوگ اپنی حکومت سے یہ
سوال کرنے لگے کہ ہم افغانستان میں کیوں گیے تھے؟ جب سوویت فوجیں افغانستان میں
گئی تھیں۔ وہ ہماری فوجیں اپنے ساتھ لے کر نہیں گئی تھیں۔ حالانکہ ہم Warsaw Pact کے رکن تھے۔ افغانستان اب ہماری جنگ
کیوں ہے؟ جب مشرقی یورپ کے نیٹو ملکوں میں یہ عوامی راۓ تھی تو نیٹو میں Cracks آ گیے تھے۔ یہ بش انتظامیہ کی National Security Team تھی جو نامعلوم
کیا سوچ کر نیٹو کو اپنے ساتھ افغانستان لے گئی تھی؟ اور افغانستان میں لے جا کر
ان سے کہا گیا کہ 'یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی کہ جب تک افغانستان سے طالبان کا
مکمل خاتمہ نہیں ہو جاۓ گا۔' پریذیڈنٹ بش کی National Security کا یہ فیصلہ روس کے مفاد میں تھا۔ نیٹو روس کے گرد اس کے ہمسایہ
ملکوں کو نیٹو کی رکنیت دے کر گھراؤ کر رہا تھا۔ لیکن اس فیصلے سے نیٹو افغانستان
میں Bogged down ہو گیا تھا۔
اور اب دیکھنا یہ تھا کہ طالبان کا خاتمہ پہلے ہوتا ہے یا نیٹو میں توڑ پھوڑ پہلے
ہو گی؟ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی طالبان سے شکست کا 2016 کے صدارتی انتخاب
میں روس کی Meddling سے کیا تعلق
تھا؟ اس ناکامی کا بش انتظامیہ کے غلط فیصلوں اور ا و با مہ انتظامیہ کو ان غلط
فیصلوں کو جاری رکھنے کا الزام دیا جاۓ گا۔
یورپ کے ساتھ امریکہ کے تعلقات خراب
ہونے کا الزام بھی روس کو دیا جا رہا ہے۔ Ukraine کے مسئلہ پر یورپ نے امریکہ کے موقوف کی مکمل حمایت کی تھی۔ لیکن
ایران کے ایٹمی سمجھوتے پر جو ا و با مہ انتظامیہ میں ہوا تھا۔ اور اس سمجھوتے پر
یورپی ملکوں نے دستخط کیے تھے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے یہ معاہدہ ختم کرنے میں یورپ کی
بھر پور مخالفت پر اسرائیل کی اس معاہدہ کی مخالفت کو ترجیح دی تھی۔ جس کے نتیجے
میں امریکہ کے یورپ سے تعلقات خراب ہوۓ تھے۔ اسرائیلی یورپ میں Anti-Semitism بڑھ رہا تھا اس سے خوش نہیں تھے۔
اور Holocaust یورپ میں ہوا
تھا اسے نہیں بھولے تھے۔ کانگرس کو جو مثبت کام کرنا چاہیے تھے وہ نہیں کیے تھے۔
اور Impeachment میں وقت برباد
کیا تھا۔ کانگرس کو ہر قیمت پر ایران سمجھوتہ کے خلاف پریذیڈنٹ ٹرمپ کو فیصلہ کرنے
سے روکنا چاہیے تھا۔ ایک تو یہ سمجھوتہ سابق انتظامیہ نے کیا تھا۔ اس لیے بھی اس سمجھوتہ
کا احترام ہونا چاہیے تھا۔ اور دوسرے امریکہ کے انتہائی قریبی اتحادیوں کو اہمیت
دینا چاہیے تھی جو ایران معاہدہ ختم کرنے
کے خلاف تھے۔ لیکن کانگرس اور سینٹ کی Foreign Relations Committees نے اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ اتحاد رکھنے میں
کچھ نہیں کیا تھا۔ ایران کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی سخت ترین اقتصادی بندشوں سے
یورپ کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ صرف جرمن کمپنیوں کو ایران پر بندشوں کی
وجہ سے بلین ڈالروں کا نقصان ہوا ہے۔ جبکہ فرانس، برطانیہ، اٹلی، اسپین اور دوسرے
یورپی ملکوں کو بھی نقصانات ہو رہے ہیں۔ امریکہ اپنے اتحادیوں کو نقصان پہنچا رہا
ہے۔ لیکن الزام Russian
Meddling کو دیا جاتا ہے۔ Venezuela میں جو ہو رہا ہے
وہ Perfect Meddling definition ہے۔ پریذیڈنٹ
ٹرمپ نے Juan Guaido کو Venezuela کا صدر قرار دیا ہے۔ پریذیڈنٹ پو
تن نے ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر قرار نہیں دیا تھا۔
No comments:
Post a Comment