Thursday, February 20, 2020

Militarism and War-ism Draining Gulf Arab State’s Financial Wealth, ‘They’re All Saving Could Run Out in Fifteen Years,’ Warning from the IMF


Militarism and War-ism Draining Gulf Arab State’s Financial Wealth, ‘They’re All Saving Could Run Out in Fifteen Years,’ Warning from the IMF  


Militarism and War-ism is worse than Socialism, in Socialism people’s lives are built, while Militarism destroys people’s lives

مجیب خان
The Cooperation Council for the Arab States of the Gulf is a regional intergovernmental political and economic union  



  تیل کی دولت سے مالا مال خلیج کے ملکوں کی اقتصادی صحت پر IMF نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ان ملکوں کے تمام محفوظ فنڈ ز  آئندہ 15سال میں ختم ہو جائیں گے۔ جیسا کہ Climate change ان کے لیے ایک بڑی پریشانی بن رہی ہے۔ جبکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کے نئے سپلائر آ گیے ہیں جو تیل کی بھر مار کر کے قیمتیں گراتے جا رہے ہیں۔ IMF نے اپنی رپورٹ میں انہیں متنبہ کیا ہے۔ اور انہیں مشورہ دیا ہے کہ اپنے اخراجات کو لگا م دیں۔ IMF نے یہ مشورہ انہیں بحرین کی صورت حال کے پیش نظر دیا ہے کہ جسے 2018 میں ادائیگیاں کرنے میں سخت دشواریوں کا سامنا ہو رہا تھا۔ اور ہمسایہ ملکوں نے بحرین کو 10بلین ڈالر دئیے تھے اور اس کی معیشت گرنے سے بچائی تھی۔ بحرین کا قرضہ اس کے GDP کا 93% تھا۔ عالمی تیل کی سپلائی میں خلیج کے ملکوں کا حصہ صرف 20فیصد ہے۔ IMF نے خلیج کے 6ملکوں کو جن میں ا و مان، قطر اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں، آگاہ کیا ہے کہ تیل کے استعمال کی بچت میں نئی ٹیکنالوجی  مسلسل بہتر ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ تیل کے وسائل میں تجدید کو اختیار کرنے اور Climate change کے نتیجے میں ایک مضبوط پالیسی پر زور دیا جا ر اہا ہے۔ IMF کی رپورٹ کے مطابق تیل کی عالمی طلب رفتہ رفتہ بڑھنے کی توقع ہے اور پھر آئندہ دو دہائیوں میں اس میں انحطاط آنا شروع ہو گا۔ اگر یہ توقعات حقیقت ہیں۔ تو پھر تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو اپنی معیشت کے زمینی منظر کی تشکیل نو کرنا ہو گی۔ جن میں خلیج کے ملک بھی شامل ہیں۔ اگر فرض کیا جاۓ کہ بیر ل تیل 55 ڈالر ہوتا ہے، IMF نے خلیج کے ملکوں کو آگاہ کیا کہ آئندہ 15 سال میں ان کی مالیاتی دولت ختم ہو سکتی ہے۔ IMF کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خطہ کی مجموعی اصل مالیاتی دولت، ایک اندازے کے مطابق اس وقت 2ٹریلین ڈالر ہے۔ جو 2034 تک منفی ہو جاۓ گی۔ جیسا کہ یہ خطہ قرضہ پر رہنے والا بن جاۓ گا۔ بلا آخر، یہاں تک کہ تیل کی قیمتیں بڑھنے کے باوجود خلیج کے ملکوں کو اپنے محفوظ فنڈ ز خرچ کرنا پڑیں گے۔
  خلیج کے حکمران IMF کی اس رپورٹ کو کتنا سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ رپورٹ میں انہیں جن حالات کا سامنا ہونے سے متنبہ کیا گیا ہے۔ اس بارے میں وہ کیا سوچ رہے ہیں۔ آج انہیں اور اس خطہ کی جو صورت حال ہے۔ اس پر انہوں نے 20سال پہلے کبھی سوچا تھا۔ اور نہ ہی اس کے روک تھام کے لیے کوئی حکمت عملی بنائی تھی۔ جیسے یہ اپنے ملک اور خطہ کو ad hoc بنیادوں پر دیکھ رہے تھے۔ یا اپنے خطہ کو Lease پر غیر ملکی فوج کو دے دیا تھا۔ ان کے خطہ کے حالات دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکمران جو محلوں میں رہتے ہیں کتنے نااہل اور غیر ذمہ دار ہیں۔ سارا خطہ ان کی قیادت میں پتھر کے دور میں آ گیا ہے۔ امن اور استحکام کے لیے ان کا کوئی Contribution نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے خطہ کے اتنے مسائل حل نہیں کیے ہیں کہ جتنے مسائل انہوں نے پیدا کیے ہیں۔ اور اب مسائل کے Lava پر بیٹھے ہیں۔ جس کے پھٹنے سے IMF کی رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا 2030 سعودی عرب کو ترقی یافتہ صنعتی معیشت میں منتقل کرنے کا پلان ہے۔ IMF کی رپورٹ میں کہا ہے 2034  میں خلیج کے ملکوں کے، جس میں سعودی عرب بھی شامل ہے، محفوظ فنڈ ز ختم ہو جائیں گے۔ خلیج کے حکم رانوں کے پاس اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے صرف 15 سال ہیں۔ یہ 15 سال بھی ایسے ہی آ جائیں گے جیسے عراق کو 17 سال جنگ کے حالات میں گزر گیے ہیں۔ لیکن عراق کی ابھی تک تعمیر نو نہیں ہو سکی ہے۔ عراق کی معیشت بھی تباہ  ہے۔ عراق کے سیاسی حالات میں  ابھی تک امن ہے اور نہ ہی استحکام ہے۔ عراقی شہریوں کا مستقبل ابھی تک Uncertain ہے۔ اور یہاں 7جنگیں ہو رہی ہیں۔ جس میں سعودی عرب کی یمن کے خلاف جنگ بھی ہے۔ جسے اب 6سال ہو رہے ہیں۔
  دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے ملک 17سال میں دوبارہ تعمیر ہو گیے تھے۔ ان کی معیشت ترقی کر رہی تھی، سیاست میں استحکام آ گیا تھا۔ East اور West میں نظریاتی کشیدگی کے باوجود یورپ میں Peace اور Security کو First Priority میں رکھا گیا تھا۔ 1945 میں جنگ ختم ہوئی تھی اور 1960s میں مغربی یورپ کے ملک ترقی یافتہ صنعتی ملک بن گیے تھے۔  یورپ میں Peace اور Security نے توازن طاقت قائم کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد  یورپ میں ابھی تک کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی ہے۔ امریکہ اور یورپ نے عرب دنیا کو اپنی جنگوں کا محاذ بنا لیا ہے۔ نا ختم ہونے والی جنگوں کے لیے یہ خطہ بہت زر خیز ہے۔ عراق میں صد ام حسین کا خطرناک Regime جیسا کہ دنیا کو بتایا گیا تھا، کا خاتمہ ہونے کے بعد عرب دنیا میں امریکہ کو یورپی طرز پر Peace اور Security کا نظام رائج کرنا چاہیے تھا۔ ایران اور عرب ملکوں میں اس خطہ میں مہلک ہتھیاروں پر پابندی لگانے پر مکمل اتفاق تھا۔ اور انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا۔ لیکن امریکہ کا اس خطہ میں اچھے فیصلے  کرنے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ عرب حکم رانوں میں امریکہ کو اس خطہ میں صراط مستقیم کے راستہ پر لانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ بلکہ امریکہ کے ساتھ مل کر عرب ایرانیوں کو صراط مستقیم پر لانے کا زور لگا رہے ہیں۔ ایران کاBehavior  تبدیل   کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں۔ دنیا میں جو بھی Militarism  کے خلاف ہے اور Socialism میں انسانیت کا مفاد دیکھتا ہے۔ امریکہ اس کا Behavior تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ میں روس اور چین کے صدر کا Behavior تبدیل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔  دنیا میں لیڈروں کا Behavior تبدیل کرنا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک نئی پالیسی ہے۔ جو لیڈر امریکہ کی خلافت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں انہیں  Behavior  تبدیل کرنا ہو گا۔ دنیا نے یہ سننے اور دیکھنے کے لیے سرد جنگ ختم نہیں کی تھی۔ جو دوسروں کو Behavior تبدیل کرنے کا کہتے ہیں ان کا اپنا Behavior کون سا اچھا ہے۔
  سعودی حکومت نے Behavior تبدیل کرنے کے امریکی لفظوں کو Plagiarize  کرنا شروع کر دیا ہے۔ Munich جرمنی میں سیکیورٹی کانفرنس میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فر ہا ن نے کہا  ہے 'مذاکرات سے پہلے ایران کو اپنا Behavior تبدیل کرنا ہو گا۔' سعودی وزیر خارجہ نے کہا 'سعودی عرب جنگ نہیں چاہتا ہے۔ لیکن ایران کا Behavior مسلسل غیر ذمہ دارا نہ ہے۔ جو مڈل ایسٹ میں عدم استحکام کا سبب ہے۔ اور عالمی معیشت کو دھمکی دیتا ہے۔' وزیر خارجہ نے کہا 'ایران کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے میں نجی پیغامات یا کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہوا ہے۔ جب تک عدم استحکام کے اصل اسباب کے بارے میں بات نہیں ہوتی ہے۔ اس وقت تک بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں ہو گا۔'
  سعودی وزیر خارجہ نے صرف Nonsense باتیں کی ہیں۔ جیسا کہ مڈل ایسٹ کے امن اور استحکام کو تباہ کرنے میں سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ اور کبھی القا عدہ، کبھی بن لادن، کبھی ISIS، کبھی روس، کبھی چین، اور اب ایران کو الزام دے رہے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ نے بھی Kingdom کے جھوٹے الزام ان کے ساتھ  Registered کیے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ سے سوال یہ ہے کہ مڈل ایسٹ کے امن اور استحکام کو تباہ کرنے میں ایران کا کیا مفاد ہو سکتا ہے؟ شاید، مڈ ل ایسٹ کے عدم استحکام اور Militarism میں سعودی عرب Kingdom کا Survival دیکھتی ہے۔ وہ اس خطہ کو اپنا خطہ نہیں سمجھتے ہیں بلکہ اسے امریکہ اور اسرائیل کا خطہ سمجھتے ہیں۔ سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں نے یہاں بیک وقت کئی جنگوں کا Walmart کھولنے کی اجازت کیوں دی تھی؟ عراق پر ایران نے حملہ نہیں کیا تھا۔ سعود یوں نے عراق جنگ سے کیوں سبق نہیں سیکھا تھا؟ عراق جنگ اس خطہ کے مسلسل عدم استحکام کا سبب ہے۔ سعودی اور خلیج کے حکمران یہ الزام امریکہ کو نہیں دے سکتے ہیں۔ اور امریکہ نے اپنی جنگوں میں تباہی کی ذمہ داری کا کبھی اعتراف نہیں کیا ہے۔ امریکہ سعودی عرب اور اسرائیل نے ایران کو اپنا مشترکہ دشمن بنا لیا ہے۔ امریکہ مڈل ایسٹ میں، سعودی عرب یمن میں اور اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف جو بربریت کر رہا ہے، تینوں الزام ایران کو دیتے ہیں۔ امریکہ میں میڈیا پر اسرائیل کا کنٹرول ہے، سعودی عرب نے واشنگٹن میں طاقتور Lobby hire کر لی ہے۔ جسے سعودی حکومت 60ملین ڈالر دے رہی ہے۔ میڈیا ایران کے خلاف پراپگنڈہ کرتا ہے۔ اور لابی ایران کے خلاف سعودی عرب کے الزامات کا دفاع کرتی ہے۔
  ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد زرف نے خلیج میں بدترین کشیدگی کا امریکہ اور سعودی عرب کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا 'مجھے یقین ہے کہ ہمارے ہمسایہ بالخصوص سعودی عرب جنگ نہیں چاہتا ہے۔ ' وزیر خارجہ نے کہا' ریاض ایران کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کے Maximum Pressure مہم کے دباؤ میں ہے۔ لیکن سعودی عرب اور خلیج کے حکم رانوں کو اس سے بھی بڑے Financial Pressure کی سوچنا چاہیے۔ جس سے IMF نے انہیں اپنی رپورٹ میں متنبہ کیا ہے۔ ان کے پاس اب صرف 15سال ہیں۔ تیل پر ان کی اجارہ داری اب امریکہ کے پاس چلی گئی ہے۔ جنگیں ان کے پاس آ گئی ہیں۔ آئندہ 15 سال میں وہ کیا کریں گے؟                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                           

No comments:

Post a Comment