President Trump’s Deal of The Century Is as Bad as
Iran Deal, In the Deal, A Tiny Palestinian State Would Be Like A Brooklyn
Borough
Palestinian don’t need a new
deal, just revive the Prime Minister Yitzhak Rabin’s signatures Peace Plan,
Peace for Palestinians and Security for Israel, for which Prime Minister has given
his life. Make his signature peace plan his Legacy. Mr. Rabin’s assassination
is part of a Holocaust.
مجیب خان
PLO Chairman Yasser Arafat holds the second phase of the Oslo peace accords after the initialing of the document |
دنیا میں ایک خوف دہشت گردی کا ہے۔
دوسری پریشانی دنیا کو ناختم ہونے والی جنگوں کی ہے۔ دنیا میں تیسری پریشانی یہ ہے
کہ امریکہ قانون کی بالا دستی کے Orbit سے باہر نکل گیا ہے۔ اور بعض قومیں دنیا میں امریکہ کے قانون سے
بالا تر ہونے سے فائدے اٹھا رہی ہیں۔ امریکہ دنیا میں صرف اپنے اور ان کے مفاد میں فیصلے مسلط
کر رہا ہے۔ جب اور جہاں عالمی قوانین امریکہ کے مفاد میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔ وہاں ان
کی خلاف ورزی ہونے لگتی ہے۔ اور جب عالمی قوانین امریکہ کے مفاد کی تکمیل میں ہوتے
ہیں وہاں دنیا کو عالمی قوانین کا پابند بنانے پر زور دیا جاتا ہے۔ جیسے ایران کا
ایٹمی سمجھوتہ عالمی قانون کا حصہ بن گیا تھا۔ امریکہ کی سابق انتظامیہ نے اس پر
دستخط کیے تھے۔ سلامتی کونسل نے اس سمجھوتے کی تصدیق کی تھی۔ اور یہ قانونی
دستاویز بن گیا تھا۔ اگر ایرانی حکومت اس سمجھوتے کی خلاف ورزی کرتی تو سلامتی
کونسل ایران کے خلاف کاروائی کر سکتی تھی۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے ایران سمجھوتے کو ماننے سے
انکار کر دیا تھا۔ اور ایران کے ساتھ ایک نئے سمجھوتے کے لیے اصرار کیا تھا۔ صدر ٹرمپ
نے یہ موقف صرف اسرائیل کے مفاد میں اختیار کیا تھا۔ کیونکہ اسرائیلی حکومت کو
ایران سمجھوتہ قبول نہیں تھا۔ بعد میں سعودی حکومت بھی اس سمجھوتے کے خلاف اسرائیل کے ساتھ شامل ہو
گئی تھی۔ امریکہ میں جمہوریت ہے۔ جہاں
عوام کی اکثریت سے صدر منتخب ہوتا ہے۔ دنیا کی اکثریت ایران سمجھوتے کی حمایت کرتی
ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے اسرائیل اور سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
جبکہ سعودی عرب میں 70سال سے عوام کے کوئی سیاسی حقوق نہیں ہیں۔ اور اسرائیل 70سال
سے فلسطینیوں کی آزادی پر تالے ڈالے بیٹھا ہے۔ اسرائیل کی حکمت عملی یہ ہے کہ فلسطینیوں
کو اتنا پریشان کیا جاۓ۔ ان پر اتنا تشدد ، جبر، حملے کیے جائیں کہ وہ تنگ آ کر فلسطین
چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ 10سال سے Likud حکومت اس پالیسی پر گامزن ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف بھر پور طاقت کا
استعمال روز کا معمول بن گیا ہے۔ ہر جگہ اسرائیل کی فوجی چوکیاں بنی ہوئی ہیں۔
فلسطینیوں کی نقل و حرکت انتہائی دشوار اور محدود بنا دی ہے۔ کبھی ان کی بجلی بند
کر دی جاتی ہے۔ کبھی انہیں بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ کبھی اسرائیلی
حکومت فلسطینیوں کو فنڈ ز فراہم کرنے میں انہیں پریشان کرنے لگتی ہے۔ حالانکہ یہ
فلسطینیوں کے اپنے فنڈ ز ہیں جو ان کے ٹیکس اور تجارت کی رقمیں ہیں۔ اسرائیلی
حکومت انہیں وصول کرتی ہے۔ اسی طرح امریکہ فلسطینیوں کو امداد دیتا تھا وہ بھی
اسرائیل کے ذریعے جاتی تھی۔ اسرائیل اسے روک لیتا تھا۔ مقصد صرف انہیں پریشان کرنا
ہوتا تھا۔ گزشتہ سال صدر ٹرمپ نے فلسطینیوں کی مالی امداد بند کرنے کا فیصلہ کیا
تھا۔ واشنگٹن میں فلسطینیوں کا آفس بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ انتظامیہ کی یہ Blackmailing ایسی ہی تھی جیسے ایران کو
مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کے لیے اسے Blackmail کیا جا رہا تھا۔ سعودی حکومت نے حما س کو دہشت گرد تنظیم قرار دے
دیا تھا۔ امریکہ نے بھی سعودی حکومت کے فیصلے کی پیروی کی تھی۔ اس کے لیڈروں پر بندشیں
لگا دی تھیں۔ یہ ہتھکنڈے دراصل فلسطینیوں کو بے بس اور اتنا مجبور کرنے کے لیے
اختیار کیے جا رہے تھے کہ وہ تنگ ہو کر صدر ٹرمپ کی Deal of the Century پر سمجھوتہ کر لیں گے۔
2000 امریکہ میں صدارتی انتخاب کا
سال تھا۔ صدر کلنٹن اسرائیل اور فلسطینیوں میں حتمی سمجھوتہ کرانے کی بھر پور کوشش کر ر ہے تھے۔ اس مقصد سے جولائی 11-24 کیمپ ڈیوڈ میں چیرمین یا سر عرفات
اور وزیر اعظم Ehud Barak کے درمیان مذاکرات تقریباً کامیابی
کے قریب تھے۔ لیکن پھر اچانک مذاکرات میں تعطل آ گیا تھا۔ حالانکہ پیشتر سے زیادہ
امور پر اتفاق ہو گیا تھا۔ امریکہ میں انتخابی مہم عروج پر تھی۔ جارج بش کی
انتخابی مہم کے قدامت پسند اسرائیل نواز مشیر تنازعہ کے دونوں فریقوں سے یہ اپیلیں
کرنے لگے تھے کہ جارج بش جب اقتدار میں آئیں گے تو وہ انہیں زیادہ بہتر ڈیل دیں
گے۔ اب اگر اس وقت الگور صدر بن جاتے تو اسرائیل اور فلسطینیوں میں یہ سمجھوتہ ضرور ہو
جاتا۔ کلنٹن انتظامیہ میں اسرائیل اور فلسطینیوں میں تقریباً 98Percent معاملات پر اتفاق ہو گیا تھا۔ اور
جن امور پر تھوڑا بہت اختلاف تھا۔ اسے الگور انتظامیہ میں حل کر لیا جاتا۔ یہ بہت
ممکن تھا کہ صدر بل کلنٹن Middle East Special Envoy بن جاتے۔ اس
ایشو پر صدر کلنٹن کی خاصی Understanding تھی۔ تنازعہ کے
دونوں فریقوں کے موقف کا بھی انہیں با خوبی علم تھا۔ اوسلو معاہدے پر عملدرامد
کرانے میں صدر کلنٹن بڑی حد تک کامیاب ہو گیے تھے۔ لیکن یہ بد قسمتی تھی کہ انتخاب
میں دھاندلی نے جارج بش کو صدر بنا دیا تھا۔ صدر بش اقتدار میں نہیں آۓ تھے۔ بلکہ Neo-Cons دراصل اقتدار میں آ گیے تھے۔
انہوں نے اپنے منصوبہ کے تحت مشرق وسطی میں تباہی پھیلا کر اس کا نقشہ بدل دیا۔ پہلے
عراق تباہ کیا، اس کے بعد لیبیا تباہ کیا، اس کے بعد شام تباہ کیا، سعودی عرب سے
یمن تباہ کرا دیا۔ ایران کو معاشی طور پر تباہ کرنے کے لیے امریکہ کی اکنامک پاور
استعمال کی جا رہی ہے۔ نتیجہ اب یہ کہ آدھے سے زیادہ مشرق وسطی تباہ حال ہے۔ آدھے
سے زیادہ مشرق وسطی جنگوں کے زخموں میں ہے۔ آدھے سے زیادہ مشرق وسطی مر دہ ہے۔ عرب
حکم رانوں کو صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کر خوفزدہ کر دیا ہے کہ امریکہ کے بغیر وہ دو
ہفتہ سے زیادہ Survive نہیں کر سکتے
ہیں۔ مشرق وسطی کی آدھی سے زیادہ آبادی کو دہشت گرد قرار دے دیا
ہے۔ اور پھر اسرائیل-فلسطین تنازعہ حل کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ 20سالوں سے عرب دنیا میں تباہی پھیل رہی ہے۔ دنیا کی توجہ اس طرف
لگا دی ہے۔ اور اسرائیل کی حکومت Expansion پالیسی کو فروغ دے رہی تھی۔ فلسطینیوں کو بے گھر کیا جا رہا تھا۔
اور ان کی جگہ نئی یہودی بستیاں تعمیر ہو رہی تھیں۔ 1972 میں مغربی کنارے میں 1182
Settlers تھے۔ 2018 میں 611,000 اسرائیلی Settlers مغربی کنارے میں آباد ہو گیے تھے۔
اس میں مشرقی یروشلم بھی شامل تھا۔ 2001 میں مغربی کنارے میں 200,297 اسرائیلی Settlers تھے۔ با ظاہر بش اور ا و با مہ انتظامیہ میں اسرائیلی Expansion بڑی تیزی سے ہوا تھا۔ دونوں
انتظامیہ میں حکومت کے ترجمان اسرائیل کی Settlements کی مذمت صرف عربوں کو دکھانے کے لیے کرتے تھے۔ لیکن Settlements کو روکنے کے لیے بش اور ا و با مہ
انتظامیہ نے کوئی سخت اقدام نہیں کیا تھا۔ بلکہ فروری 2011 میں سلامتی کونسل میں فلسطینی
علاقوں میں اسرائیلی غیر قانونی Settlements کی مذمت میں قرار داد کو امریکہ نے ویٹو کیا تھا۔
یہ امریکہ کی Two face پالیسی تھی۔
واشنگٹن میں انتظامیہ کے ترجمان اسرائیل کی Settlements پالیسی کی مذمت کرتے تھے۔ اور
سلامتی کونسل میں اسرائیل کی اس پالیسی کی مذمت میں قرار داد ویٹو کرتے تھے۔ اگر
صد ام حسین کی جگہ اسرائیل کویت پر قبضہ کر لیتا تو آج کویت میں بھی اسرائیلی Settlements ہوتیں اور کویت اسرائیل کا حصہ
ہوتا۔ امریکہ کا Pro-Israel
Track record ہے۔ اس لیے امریکہ اسرائیل- فلسطین تنازعہ میں ایک Honest Peace Broker نہیں ہو سکتا ہے۔ صرف صدر کارٹر
اور صدر کلنٹن نے Honest Peace Broker کوشش کی تھی۔ صدر کارٹر نے مصر
اور اسرائیل میں کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ کرایا تھا۔ مصر کو اس کے علاقے واپس مل گیے
تھے۔ اور اسرائیل کو مصر کی سرحد سے سلامتی کی ضمانت مل گئی تھی۔ صدر کارٹر دوسری
مدت کے لیے انتخاب ہار گیے تھے۔ اور صدر ریگن نے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے پر مکمل
عملدرامد نہیں کرایا تھا۔ جیسے صد ام حسین کے مسئلے پر صدر کلنٹن سے عملدرامد
کرایا گیا تھا۔ جو جارج ایچ بش کی انتظامیہ میں پیدا کیا گیا تھا۔ یہ امریکہ کی
روایت ہے کہ ایک انتظامیہ میں امن کے سلسلے میں ہونے والی کوششوں یا سمجھوتوں کو
نئی انتظامیہ میں کبھی آگے نہیں بڑھایا جاتا ہے۔ بلکہ ایک انتظامیہ میں جو جنگ
شروع ہوتی ہے۔ دوسری انتظامیہ بھی اس جنگ کو آگے بڑھاتی ہے۔ اور اس جنگ سے نئی
جنگیں پیدا کرتی ہے۔ صدر جارج بش نے صدر کلنٹن کی انتظامیہ میں اوسلو معاہدے کے
تحت اسرائیل اور فلسطینیوں میں جو معاہدے ہوۓ تھے۔ انہیں ختم کرانے میں ایریل
شرون- نتھن یا ہو کی مدد کی تھی۔ اور بڑے بش نے مشرق وسطی میں جس جنگ کی بنیاد ر کھی
تھی۔ اسے پھیلانے کی پالیسی اختیار کی تھی۔ اس پالیسی کو صدر ا و با مہ نے جاری
رکھا تھا۔ اس پالیسی کو صدر ٹرمپ سے جاری رکھنے کا کہا جا رہا ہے۔ دنیا میں فوجی
حملے، طیارہ بردار بیڑے، بم، میزائل، راکٹ، ڈر ون B-52, F-35, کیا امن لا سکتے ہیں؟
یہ 180 صفحات کی Deal of the Century دراصل Made in Israel Deal ہے۔ جس طرح Black Money کو White کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس ڈیل میں فلسطینیوں کے علاقوں پر اسرائیل
کے غیر قانونی قبضوں کو قانونی بنایا گیا ہے۔ جیسے اسرائیل کو تمام عالمی قوانین
سے بالا تر رکھا گیا ہے۔ اور اس کے تمام غیر قانونی گناہ امریکہ نے معاف کر دئیے
ہیں۔ اس ڈیل میں فلسطینی صرف LOSERS ہیں۔ انہیں صرف
یہ سہا نے خواب دکھاۓ جا رہے کہ اس ڈیل کو قبول کرنے سے ان کے اقتصادی حالات بہتر
ہوں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطین کی مدد کے لیے 10سالوں میں 28بلین ڈالر دینے کا
وعدہ کیا ہے۔ جو
Infrastructure,
Transportation links معیار زندگی بڑھانے اور علاقائی تجارت فروغ دینے کے منصوبوں پر
خرچ کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ایجوکیشن، صحت عامہ، ہنر مند فروغ دینے کے لیے
علیحدہ فنڈ ز مخصوص کیے جائیں گے۔ گزشتہ سال بحرین کانفرنس میں بہت تھوڑے فنڈ ز
جمع ہوۓ تھے۔ لیکن امریکہ نے یقین دلایا ہے کہ وہ کیش کی کمی کی وجہ سے اس عمل کو
ختم نہیں ہونے دے گا۔' ایسے وعدے اور یقین دہانیاں امریکہ اور یورپی ملکوں نے
ایران سے بھی کیے تھے کہ اگر وہ ایٹمی سمجھوتے پر دستخط کرے گا تو ایران پر سے
تمام بندشیں ختم کر دی جائیں گی۔ ایران میں سرمایہ کاری کی جاۓ گی۔ ایران کے پاس
اپنے عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے منصوبوں پر خرچ کرنے کے لیے فنڈ ز ہوں گے۔
وغیرہ وغیرہ۔ لیکن پھر کیا ہوا، کس طرح ایران کو دھوکا دیا گیا کہ نئی انتظامیہ نے
ایران کے ساتھ سمجھوتے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اور ایران کو اقتصادی بندشوں میں
جھکڑ دیا۔ یورپی ملک جنہوں نے ایران کے ساتھ سمجھوتے پر دستخط کیے تھے۔ وہ بے بس
نظر آ رہے ہیں۔ لوگ ایران میں بھوکے مر رہے ہیں۔ اسرائیل کا امریکہ پر اتنا کنٹرول
ہے۔ اسرائیل مستقبل میں فلسطینیوں کی ریاست کے ساتھ بھی یہ کر سکتا ہے۔ ان کی
اقتصادی امداد بند ہو سکتی ہے؟
فلسطینیوں کو کسی نئے امن منصوبے کی ضرورت نہیں
ہے۔ چیرمین یا سر عرفات اور وزیر اعظم Yitzhak Rabin کے درمیان اوسلو معاہدے کے تحت جن امور پر اتفاق ہو چکا ہے۔ اور جو سمجھوتے ہو گیے تھے۔ انہیں آ گے بڑھایا جاۓ۔
وزیر اعظم Yitzhak Rabin نے امن کے لیے اپنی زندگی دی ہے۔
اسے فراموش نہیں کیا جاۓ۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ کا حل وزیر اعظم Yitzhak Rabin کی Legacy بنایا جاۓ۔ ان کا امن مشن مکمل کیا جاۓ۔ اس وقت دو سمجھوتے 40سال
قبل اسرائیل- مصر کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ اور 26سال قبل فلسطین- اسرائیل اوسلو معاہدہ
موجود ہیں۔ جن پر عملدرامد نہیں ہوا ہے۔ لیکن تنازعہ کے فریقین نے ان معاہدوں پر مکمل اتفاق کیا ہے۔ صدر ٹرمپ فلسطین- اسرائیل
تنازعہ کو حل کرنے میں ان معاہدوں کو Base بنائیں۔
No comments:
Post a Comment