Why Do People Vote? When Neoconservative, Not The
People, Shaped The Administration’s Foreign, Defense, And National Security
Policy, Administration’s Appointees Are Not People’s Representatives
Neoconservative believe in
Presidential Powers, they don’t believe international law and international
institutions and this is what’s happening in America
مجیب خان
ہر 4 سال بعد صدارت کے لیے امیدوار
اسٹیج پر آتے ہیں۔ عوام سے عوام کی باتیں کرتے ہیں۔ عوام سے پھر وہ ہی باتیں اور
وعدے کرتے ہیں۔ جو 4 سال قبل ان سے کی تھیں۔ اور پریذیڈنٹ منتخب ہو گیے تھے۔ لیکن
پریذیڈنٹ بن کر وہ عوام سے اپنے وعدے اور باتیں بھول جاتے تھے۔ اور پھر وہ ہی کرنے
لگتے تھے جو ان سے پہلے کر رہے تھے۔ ان کے مشن، ان کی جنگیں جاری رکھتے تھے۔
انتخابی مہم میں وہ عوام سے جنگیں ختم کرنے کی باتیں کرتے تھے۔ لیکن پریذیڈنٹ بن
کر وہ پرانی جنگوں میں نئی جنگوں کا اضافہ کرنے لگتے تھے۔ عوام سے وہ دنیا بھر میں
امریکہ کا Police man بننے
کا کردار ختم کرنے کا وعدہ کرتے تھے۔ لیکن پھر امریکہ کو دنیا کا سب سے بڑا Police man ثابت کرنے لگتے تھے۔ امریکی فوجیں
واپس اپنے گھروں میں لانے کا وعدہ پورا کرنے کے بجاۓ، مزید امریکی فوجیں بیرون ملک
دوسروں کے گھروں میں بھیجنے لگتے تھے۔
21ویں صدی کے آغاز پر پہلے پریذیڈنٹ George W. Bush تھے۔ جنہوں نے اپنی صدارتی مہم
میں عوام کے مفاد میں کام کرنے کے جتنے
وعدے کیے تھے۔ ان میں سے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا تھا۔ بلکہ افغانستان میں
داخلی خانہ جنگی کو امریکہ کی قومی ملکیت [Nationalize] میں لے لیا
تھا۔ صدر ا و با مہ نے اپنی انتخابی مہم میں افغان جنگ کو Denationalize کرنے اور افغانستان سے امریکی
فوجیں واپس بلانے کا کہا تھا۔ عراق جنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ سینیٹر ا و با
مہ عراق جنگ کے خلاف تھے۔ بش انتظامیہ کی Regime change policy کی صدر ا و با مہ نے مخالفت کی تھی۔ عالمی امن اور
قانون کی حکمرانی بحال کرنے کا اعادہ کیا تھا۔ صدر ا و با مہ کے مقابلے پر John McCain [warmonger] ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار تھے۔ لیکن
امریکی عوام کی اکثریت نے بر اک ا و با مہ کو صرف اس لیے ووٹ دئیے تھے کہ وہ Warmonger نہیں تھے۔ صدر ا و با مہ امریکہ کے پہلے Black صدر تھے۔ امریکی عوام بلکہ دنیا
بھر میں لوگوں کو یہ یقین تھا کہ امریکہ کا First Black 44 President، امریکہ کے 43 White Presidents سے بہت مختلف ہو گا۔ صدر ا و با مہ سابق
انتظامیہ کی War and Violence policy تبدیل کریں گے۔ اور
Martin Luther King کی Non-Violence teaching کو اپنی پالیسی بنائیں گے۔ لوگوں
نے انتخابی مہم میں ا و با مہ کے ساتھ Hope on the way کے نعرے لگاۓ تھے۔ لیکن جب صدر بن
جاتے ہیں۔ پھر سب بھول جاتے ہیں۔ اور بدل جاتے ہیں۔ صدر ا و با مہ اپنے لیڈر Martin Luther King کی Teaching بھول گیے تھے۔
امریکی عوام ہر 4 سال بعد صرف ووٹ
دیتے ہیں۔ لیکن حکومت ان کی ہوتی ہے۔ جنہیں کوئی منتخب نہیں کرتا ہے۔ وہ حکومت
کرتے ہیں۔ وہ فیصلے کرتے ہیں۔ وہ پالیسیاں بناتے ہیں۔ پریذیڈنٹ سے پھر ان پر
عملدرامد کراتے ہیں۔ اور یہ Advisers ہوتے ہیں۔
کابینہ کے اراکین ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق عوام سے نہیں، Special interest groups, Think Tanks, Corporate Lobbyists,
Representatives of Military industrial complex سے ہوتا ہے۔ بش-چینی
انتظامیہ پر Neocons کا Domination تھا۔ کنڈا لیزا رائس Chevron آئل کمپنی کے بورڈ کی رکن تھیں۔ اور
آئل کمپنیوں کے مفادات کو Represents کرتی تھیں۔ جارج
بش کے بہت قریب تھیں۔ قومی سلامتی امور کی مشیر تھیں۔ سیکرٹیری ڈیفنس رمز فلڈ Arms Industry کے مفادات کو Represent کرتے تھے۔ ان کے ڈپٹی Paul Wolfowitz اسرائیل کے مفاد میں عراق میں Regime change mission پر تھے۔ Neocons جو بش انتظامیہ کی خارجہ، دفاع اور سیکورٹی پالیسیاں بنا رہا تھے۔
دہشت گردی کی جنگ کو مڈل ایسٹ کا نقشہ بدلنے کے لیے استعمال کرنے کی حکمت عملی
فروغ دے رہے تھے۔ ان میں
John Bolton, Douglas Feith, Richard Perle, David
Wurmser, Michael Ledeen, Scooter Libby, Kenneth Adelman, Philip Zelikow, Bernard
Lewis, Elliot Abrams, Bill Kristol, Robert Kagan, David Frum, Frank Gaffney and
many others
صدر بش کی انتظامیہ میں John
Yoo اٹرنی جنرل John Aschcorft کے ڈپٹی اسٹیٹ اٹرنی جنرل تھے۔ John Yoo صدر کے اختیارات میں یقین رکھتے
تھے۔ واٹر بورڈ نگ اور تفتیش کے دوران Torture کی حمایت کرتے تھے۔ صدر
بش کے Advisers میں اقتصادی
مشیر Lawrence Lindsey ایک سچے محب وطن
تھے۔ جنہوں نے یہ سچ بولا تھا کہ عراق پر حملے کا تخمینہ 200بلین ڈالر ہو گا۔ امریکی
عوام کو عراق پر حملے کا یہ تخمینہ سچ بتانے پر صدر بش نے فوری طور پر Lawrence Lindsey کو برطرف کر دیا تھا۔ لیکن اس وقت
کسی نے صدر بش کے اس اقدام کو Abuse of Power نہیں کہا تھا۔ عراق کے بارے میں بش انتظامیہ میں کسی نے سچ نہیں بولا
تھا۔ جو جتنا زیادہ جھوٹ بولتا تھا۔ وہ اتنا ہی بڑا محب وطن سمجھا جاتا تھا۔ Paul Wolfowitz ڈپٹی ڈیفنس سیکرٹیری نے کہا تھا
کہ 'عراق پر حملے کے اخراجات بڑی حد تک خود عراق کے تیل سے ادا ہوں گے' Defense Secretary Rumsfeld called Lindsey’s
“baloney” لیکن 2007 تک عراق پر حملہ کرنے کے اخراجات 400بلین ڈالر پر پہنچ
گیے تھے۔ اور اگست 2007 میں CBO کی
رپورٹ تھی کہ یہOne
Trillion بلکہ اس سے بھی اوپر پہنچ جائیں گے۔ بش انتظامیہ میں صرف Lawrence Lindsey نے سچ بولا تھا جبکہ باقی سب جھوٹ
بول رہے تھے۔ واشنگٹن میں حکومت اگر عوام کی ہوتی تو بش انتظامیہ کبھی اپنے عوام
سے جھوٹ نہیں بولتی۔ صدر بش امریکی عوام کو سنتے انہیں اہمیت دیتے۔ ہزاروں اور
لاکھوں امریکی عراق پر فوجی حملہ کرنے کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔ عوام نے جارج بش
کو ووٹ دے کر پریذیڈنٹ بنایا تھا۔ لیکن جارج بش پریذیڈنٹ بن کر Neoconservatives کے لیے کام کرنے لگے تھے۔ Non-elected Advisers کی Advise کو امریکی Voters پر فوقیت دیتے تھے۔
ا و با مہ انتظامیہ میں Neoconservative Proxies تھے۔ جنہوں نے بش انتظامیہ کی پالیسیاں جاری رکھنے میں ا و با
مہ کو گائیڈ کیا تھا۔ شام اور لیبیا میں Regime change اور ان ملکوں کو گراؤنڈ زیرو بنانا Neocons کا ایجنڈہ تھا۔ اور یہ
کام صدر ا و با مہ سے لیا گیا تھا۔ صدر ا و با مہ جب سینیٹر تھے، سینیٹر ا و با مہ
نے عراق میں Regime change war کی مخالفت کی
تھی۔ لیکن پریذیڈنٹ ا و با مہ لیبیا اور شام میں Regime change wars کی کمانڈ کر رہے تھے۔ صدر ا و با مہ نے امن کا نوبل ایوارڈ
لے کر دنیا کو امن نہیں، جنگیں دیں تھیں۔ اور یہ Neoconservatives کی جنگیں تھیں۔ امریکی عوام نے دو
مرتبہ ا و با مہ کو ووٹ دئیے تھے۔ لیکن صدر ا و با مہ نے امریکی عوام سے Hope and Peace کے جو وعدے کیے انہیں پورا نہیں
کیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے بھی جنگیں ختم کرنے کے امریکی عوام
سے وعدے کیے تھے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں عراق لیبیا اور شام میں جنگوں
کی مخالفت کی تھی۔ Neoconservative
Proxies ٹرمپ انتظامیہ میں بھی ہیں۔ John Bolton کو ٹرمپ انتظامیہ میں قومی سلامتی
امور کا مشیر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جس نے عراق کے خلاف جھوٹ پر حملہ کرنے کی حمایت
کی تھی۔ امریکی عوام کو اس کی ایک بھاری قیمت ادا کرنا پڑی تھی۔ اور اب John Bolton عراق کی مثال پر
ایران کے خلاف حملہ کا کیس بنا رہے تھے۔ سعودی عرب میں آئل تنصیبات پر میزائل حملہ
ایران نے نہیں کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی تحقیقات میں اس کے کوئی ثبوت نہیں ملے تھے
کہ حملہ ایران نے کیا تھا۔ لیکن امریکہ میں کیبل نیوز چینلز جیسے Neoconservatives کے مشن کو آ گے بڑھا رہے تھے۔ صدر
ٹرمپ کے لیے انتہائی سخت صورت حال پیدا کر کے انہیں بھی سابقہ دو انتظامیہ کے
راستہ پر آنے کے لیے مجبور کیا جا رہا تھا۔ Impeachment sword ان کی پریزیڈنسی پر لٹک رہی تھی۔
صدر ٹرمپ کو مڈل ایسٹ میں کئی ہزار فوج بھیجنے کا اعلان کرنا پڑا تھا۔ ایرانی جنرل
کے Assassinate کا حکم دیا تھا۔ اس حملہ کے بعد
صدر ٹرمپ بھی بش اور ا و با مہ کے ساتھ شامل ہو گیے ہیں۔ امریکی عوام کو صدر ٹرمپ
کے ایرانی جنرل پر حملہ کرنے کے فیصلے سے سخت مایوسی ہوئی تھی۔ پریذیڈنٹ منتخب
ہونے کے بعد اگر عوام کے ووٹ کی اہمیت نہیں سمجھتے ہیں۔ تو عوام ووٹ کیوں دیں؟
No comments:
Post a Comment