Thursday, March 5, 2020

It Took Nineteen Years to Acknowledge Pakistan’s Stand, talks with the Taliban are the Only Solution of Afghanistan, Trump’s Administration has a Dialogue with the Taliban and The result is a Historic Deal to End the War


It Took Nineteen Years to Acknowledge Pakistan’s Stand, talks with the Taliban are the Only Solution of Afghanistan, Trump’s Administration has a Dialogue with the Taliban and The result is a Historic Deal to End the War


President Trump’s ‘very good talk’ with the Taliban over the phone is a very impressive decision, the President shows his greatness

مجیب خان


‏‏Mullah Abdul Baradar, the leader of the Taliban signs an agreement with American Special Envoy for Afghanistan, Zalmay Khalilzad  





The U.S.-Taliban to resume talks in Doha, Qatar to end the war in Afghanistan


 ماسکو میں کمیونسٹ لیڈروں سے مذاکرات امریکہ کے لیے جیسے Fun ہوتے تھے۔ مذاکرات کی ٹیبل پر Capitalists اور Communists میں Balance of Power ہوتا تھا۔ لیکن افغانستان میں 19سال جنگ کے بعد تحریک طالبان کے لیڈروں سے دوحہ قطر میں مذاکرات میں امریکہ صرف Balance کرنے کی پوزیشن میں تھا۔ اور Power تحریک طالبان کے پاس تھی۔ اور Tragedy یہ تھی کہ کمیونسٹوں کے خلاف سرد جنگ سے نکل کر امریکہ طالبان کے ساتھ ایک گرم جنگ میں آ گیا تھا۔ امریکہ پر 9/11 کا حملہ افغانستان سے طالبان طیارے اڑا کر نہیں لاۓ تھے۔ یہ امریکہ کے طیارے تھے۔ امریکہ کے ائر پو رٹ سے اڑے تھے۔ امریکہ پر حملہ کیا تھا۔ بش انتظامیہ نے امریکہ پر اس حملہ کا کیس طالبان کے خلاف بنایا تھا۔ جن کی اس وقت کابل میں حکومت تھی۔ اور ان کے ملک میں جو عرب شہری تھے۔ انہوں نے افغانستان کو کمیونسٹ فوجوں سے آزاد کرانے کی جنگ میں افغان بھائیوں کی مدد کی تھی اور  یہ ان کے ساتھ لڑے تھے۔ اور انہوں نے افغانستان میں پناہ لے لی تھی۔ کیونکہ ان کی حکومتوں نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے خیال میں ان کے یہ شہری کمیونسٹ فوجوں سے زیادہ خطرناک تھے۔ اور یہ سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر اور کچھ دوسرے عرب ملک تھے۔ جنہوں نے اپنی جیلیں کھول دی تھیں۔ اور ان کی موت کی سزاؤں پر عملدرامد کرنے کی بجاۓ انہیں افغانستان میں جہاد کرنے بھیجا تھا۔ اور اس جہاد میں جو زندہ رہے گیے تھے۔ انہیں ان کی حکومتوں نے قبول نہیں کیا تھا۔ آخر وہ کہاں جاتے؟ افغانستان میں آباد ہو گیے تھے۔ جنہیں امریکہ پر 9/11  کا حملہ کرنے کا الزام دیا تھا۔ بش انتظامیہ نے وہ سعودی عرب اور مصر کے شہری بتاۓ تھے۔ لیکن فوجی کاروائی طالبان کے خلاف کی تھی۔ کابل پر بھر پور فضائی طاقت کا استعمال کیا تھا۔ طالبان اقتدار چھوڑ کر بھاگ گیے تھے۔
  طالبان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف نے صدر بش کو One Trillion Dollar کا مشورہ دیا تھا کہ "طالبان سے مذاکرات کیے جائیں۔" لیکن بش انتظامیہ جنگ پر One Trillion Dollar کا بجٹ بنا رہی تھی۔ اور پاکستان سے کہا گیا کہ طالبان سے مذاکرات نہیں ہوں گے ان کا مکمل خاتمہ کیا جاۓ گا۔ پاکستان کو افغان سرحد پر فوجیں لگانے کا مشورہ دیا گیا تاکہ افغانستان سے طالبان کے پاکستان میں داخل ہونے سے روکا جاۓ۔ بش انتظامیہ کا یہ مشورہ پاکستان کی سلامتی کے مفاد میں نہیں تھا۔ تاہم صدر جنرل پرویز مشرف نے بش انتظامیہ کی پاکستان کی سلامتی کی ضمانتوں اور یقین دہانیوں کے بعد بھارت کے ساتھ  سرحد سے 70ہزار فوج ہٹا کر افغان سرحد پر لگا دی تھیں۔ طالبان اور القا عدہ کے خلاف سوات، شمالی اور جنوبی وزیر ستان میں پاکستان کی فوج کی کاروائیوں کے نتیجے میں افغان جنگ پاکستان پہنچ گئی تھی۔ کراچی میں 11 گھنٹے القا عدہ کے ساتھ جنگ کے مناظر تھے۔ جنہوں نے کراچی میں نیول بیس پر حملہ کیا تھا۔ پاکستان کی فوج سرحدوں پر ان سے لڑ رہی تھی۔ اور اب شہروں میں بھی ان کے خلاف محاذ کھلے ہوۓ تھے۔ افغانستان سے امریکہ پر حملہ نہیں ہوا تھا۔ لیکن افغانستان سے پاکستان پر حملے ہو رہے تھے۔ افغانستان سے ایران میں حملے ہوۓ تھے۔ افغانستان سے وسط ایشیا کی ریاستوں میں حملے ہوۓ تھے۔ بش انتظامیہ کی افغان پالیسی کے نتیجہ میں پاکستان میں 70ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ جن میں فوجی حکام بھی شامل تھے۔ پاکستان کا 100بلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ افغانستان سے امریکہ کو کوئی خطرہ تھا اور نہ خطرہ ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی امریکہ کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان نے پہلے صدر بش اور پھر صدر ا و با مہ سے افغانستان میں امن کے سلسلے میں اپنا یہ موقف واضح کر دیا تھا کہ افغان مسئلہ کا حل فوجی نہیں ہے۔ فوج پہلے دو تین سال میں اگر افغان مسئلہ حل نہیں کر سکی تھی۔ تو یہ 50 سال میں بھی اسے حل نہیں کر سکتی ہے۔
 40سال قبل نائب صدر جارج ایچ بش نے افغان مجاہدین کے جہاد کے بارے میں کہا تھا "کمیونسٹ فوجوں نے ان کے ملک پر قبضہ کر لیا ہے۔ اور وہ اپنے ملک کو کمیونسٹ فوجوں سے آزاد کرانے کی لڑائی میں حق پر ہیں۔ اور خدا ان کے ساتھ ہے۔" اور یہ صدر ریگن کی پالیسی تھی۔ یہ افغان مجاہدین پھر طالبان بن گیے تھے۔ 2001 میں صدر جارج بش نے کہا " طالبان کے خلاف جنگ میں امریکہ حق پر تھا۔ امریکہ پر 9/11 کا حملہ افغانستان سے ہوا تھا۔ طالبان نے القا عدہ کے دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دی تھی۔ طالبان اور القا عدہ کا افغانستان سے خاتمہ کیا جاۓ گا۔ " بش انتظامیہ میں اگر کسی کو بھی افغان تاریخ کا علم ہوتا تو وہ ضرور ایک Commonsense افغان پالیسی کو اہمیت دیتا۔ صدر پرویز مشرف کے مشورے پر توجہ دی جاتی۔ افغان  جنگ  میں Short cut لیا جاتا۔ طالبان سے فوری مذاکرات کر کے معاملات طے کر لیے جاتے۔ اس وقت طالبان بھی بہت کمزور ہو گیے تھے۔ افغانستان میں وار لا رڈ ز کا اتنا زور بھی نہیں تھا۔ منشیات مافیا کی Underground Economy بھی وجود میں نہیں آئی تھی۔ 16 سال پہلے طالبان سے معاملات طے کر لیے جاتے تو آج افغانستان کا سیاسی نقشہ بہت مختلف ہوتا۔ جب ادارے مستحکم ہوتے، امن اور استحکام کی جڑیں پھیل جاتی تو طالبان تحریک بھی شاید برف کی طرح پگل جاتی۔ لیکن طالبان کو سیاسی عمل سے علیحدہ کر کے افغانستان میں جمہوری سیاسی عمل کو فروغ دینے کی  نا معقول پالیسی کو اہمیت دی تھی۔ 16 سال میں دو امریکی انتظامیہ میں افغانستان میں کرپشن کا فروغ ہوا تھا۔ افیون کی پیداوار اور اسمگلنگ کا فروغ ہوا تھا۔ وار لارڈ ز کو اپنے ادارے قائم کرنے اور انہیں مضبوط کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔ وار لارڈ ز کے ادارے افغان معاشرے کو تقسیم کرنے کا ایک بڑا سبب ہیں۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان سمجھوتے کو ناکام کرنے کی یہ عناصر اپنی بھر پور کوشش کریں گے۔ افغان عوام امن چاہتے ہیں۔ طالبان بھی بلا آخر امن کے راستے پر آ گیے ہیں۔ اب یہ کابل حکومت کا امتحان ہے کہ اس تبدیلی کو وہ کس طرح Materialize کرتی ہے۔
  صدر بش نے Zalmay Khalilzad  کو 2003 میں افغاستان میں امریکہ کا سفیر نامزد کیا تھا۔ بش انتظامیہ کی پالیسی 'طالبان سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے'  تھی۔ اگر بش انتظامیہ کی افغان جنگ جلد ختم کرنے کی پالیسی ہوتی تو یہ جنگ 2005 میں ختم ہو سکتی تھی۔ Zalmay Khalilzad جو افغان امریکن تھے۔ کابل میں امریکہ کے سفیر کی حیثیت سے طالبان سے رابطے قائم کر سکتے تھے۔ افغان حکومت اور طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لا سکتے تھے۔ پاکستان سے طالبان کے خلاف Do More کرنے کے بجاۓ پاکستان سے طالبان کو سیاسی مذاکرات کے لیے مجبور کرنے کا کہا جاتا جو ایک Commonsense approach  تھا۔ بش اور ا و با مہ انتظامیہ کے سامنے افغان جنگ ختم کرنے کے بہت سے موقع تھے۔ امریکہ کے مالی اور جانی نقصانات انتہائی محدود رکھنے کے لیے اس جنگ میں Short cut لیا جا سکتا تھا۔ کانگرس کا رول بھی افغان جنگ میں زیادہ Positive نہیں تھا۔ جب یہ بہت واضح تھا کہ Sooner or Latter طالبان کے ساتھ صرف ٹیبل پر بیٹھ کر افغان جنگ ختم کرنے کا سمجھوتہ کرنا ہو گا۔ تو پھر 19 سال اس دن کا انتظار کرنے کا کس Socrates نے کہا تھا؟
  ٹرمپ انتظامیہ نے اب ان طالبان سے مذاکرات کیے ہیں۔ جنہیں بش انتظامیہ میں اسپیشل فورسز ز کی افغانستان میں کاروائیوں کے دوران پکڑا تھا۔ اور پھر انہیں گو تا نو مو بے میں نظر بند کیا تھا کہ یہ انتہائی خطرناک دہشت گرد طالبان تھے۔ انہیں عدالت میں نہیں لایا گیا تھا۔ دس بارہ سال بعد انہیں چھوڑ دیا تھا۔ Dialogues میں غلط فہم یاں دور کرنے کا علاج ہوتا ہے۔ اور 19سال کی غلط فہم یاں امریکہ اور طالبان میں 19 ماہ میں Dialogues سے دور ہوئی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے طالبان سے جلد ملاقات کرنے  کا کہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے طالبان سے فون پر بات کی ہے۔ صدر ٹرمپ نے بتایا ‘is a very good talk’ دوسری طرف طالبان نے کہا ‘it is a Pleasure to talk to you’ صدر ٹرمپ نے کہا ‘you are a tough people and have a great country, and I understand that you are fighting for your homeland.’       
                                                                                                                                                              

No comments:

Post a Comment