Thursday, April 16, 2020

President Trump “if China is a considered a developing country, well then make U.S. a developing nation too” President Xi Should Welcome the U.S. In the Developing Nation’s Club

 President Trump “if China is considered a  developing country, well then make U.S. a developing nation too” President Xi Should Welcome the U.S. In the Developing Nation’s Club

When the world is in Lockdown, there is no developed and developing world

مجیب خان
The U.S.President Donald Trump and China's President Xi Jinping at the Great Hall of the People in Beijing, China, Nov 9,2017

China, Wuhan under Lockdown, Feb 5, 2020

Los Angeles City Hall, California's 40million resident Lockdown in Covid19 



  وزیر اعظم عمران خان نے ترقی یافتہ ملکوں، آئی ایم اف، عالمی بنک اور اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل سے اپیل کی ہے کہ وہ ترقی پذیر اور غریب ملکوں کے قرضہ معاف کریں۔ Coronavirus کی وجہ سے دنیا میں Lockdown ہونے سے ان کی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ انہیں روزانہ لاکھوں اور کھربوں ڈالر کا اقتصادی نقصان ہو رہا ہے۔ ان حالات میں ان کے لیے قرضہ کی قسط دینا مشکل ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ترقی پذیر ملک اپنی معیشت گرنے سے بچانے کے لیے ٹیریلین ڈالر Stimulus Packages  نہیں دے سکتے ہیں۔ لہذا ان مشکل اقتصادی حالات کے پیش نظر وزیر اعظم عمران خان نے ترقی پذیر ملکوں کے قرضوں کے لیے Global initiative on Debt relief کی بات کی ہے۔ تاکہ یہ ملک پھر Coronavirus کا مقابلہ کریں اور دوسری طرف اپنے عوام کو زندہ رکھنے کے اقدام بھی کر سکیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ' ترقی پذیر ملکوں کے پاس وہ معاشی وسائل نہیں جو امریکہ جرمنی اور جاپان کے پاس ہیں۔ ترقی پذیر ملک اپنی تمام معاشی سرگرمیاں بند کر کے اپنے ریونیو بڑھا سکتے ہیں اور نہ ہی قرضوں کی قسطیں دے سکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی اس اپیل پر رد عمل ہوا ہے۔
 ترقی پذیر اور غریب ملکوں کو  Coronavirus اور Lockdown کی وجہ سے جن مشکل معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں نے ان کا ازالہ کرنے میں اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ آئی ایم اف نے اس ہفتے 25 غریب ترین اور انتہائی بے بس ملکوں کو قرضوں میں ریلیف دینے اور Coronavirus کے خلاف لڑنے میں ان کی مدد کرنے کا کہا ہے۔  اس ریلیف کے پہلے مرحلے میں آئی ایم اف نے انہیں قرضوں کی قسطیں دینے میں 6ماہ کی چھوٹ دی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے محدود اقتصادی وسائل کی وجہ سے ان کی اہم ایمر جنسی میڈیکل اور دوسری ریلیف کوششوں میں بھی مدد کی جاۓ گی۔ آئی ایم اف کے بورڈ آف ڈائریکٹر ز نے افریقہ کے تقریباً تمام ملکوں کو قرضوں میں ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ریلیف میں افغانستان، یمن، نیپال اور ہیٹی بھی شامل ہیں۔ آئی ایم اف اور و ر لڈ بنک نے دولت مند ملکوں سے کہا ہے کہ وہ اس سال یکم مئی سے جون 2021 تک غریب ملکوں سے قرضہ کی قسطیں مت لیں۔ گزشتہ ہفتہ و ر لڈ بنک نے اعلان کیا ہے کہ یہ 160بلین ڈالر ایمر جنسی امداد 15ماہ میں ان  ملکوں کو دے گا جو Virus زدہ حال میں ہیں۔ اس میں 14بلین ڈالر 76 غریب ملکوں پر دوسری حکومتوں کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے ہیں۔ و ر لڈ بنک نے کہا ' غربت کے خلاف برسوں کی ترقی Coronavirus کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ وسیع تر Lockdown سے معمول کی تمام سرگرمیاں منجمد ہو گئی ہیں۔ مغربی ملکوں میں فیکٹری آرڈر ز منسوخ ہو گیے ہیں۔ اور بڑی تعداد میں اچانک غریب ور کر ز بیروزگار ہو گیے ہیں۔ جنوبی ایشیا کو اس طوفان کے تباہ کن اثرات کا سامنا ہو گا۔ سیاحت ختم ہو گئی ہے۔ رسد کا سلسلہ ٹوٹ گیا ہے۔ Garments کی مانگ ختم ہو گئی ہے۔ صارفین اور سرمایہ کار کی دلچسپی بھی نہیں رہی ہے۔
  بھارت میں Lockdown سے Real estate شعبہ میں تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ جبکہ Trucking کے شعبہ میں Lockdown سے 35200 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ بھارت میں کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جسے کھربوں اور کروڑوں کا نقصان نہیں ہوا ہے۔ اب تک بھارت سے غیر ملکی سرمایہ کار اپنا 10بلین ڈالر لے گیے ہیں۔ Post Lockdown بھارت میں بیروزگاری 18سے 25 فیصد پر پہنچنے کا بتایا جا رہا ہے۔ برسوں کی اقتصادی ترقی کے بعد Coronavirus اور Lockdown سے نقصانات کا تخمینہ بھارت کو 10 سال  پیچھے لے گیا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی آپریشن اور ہندو مسلم فسادات میں ہونے والے معاشی نقصانات علیحدہ ہیں۔ وزیر اعظم مودی کی پالیسیاں Coronavirus سے کم نقصانات کا سبب نہیں تھیں۔ Curfew اور Lockdown میں کوئی نہیں فرق ہے۔ Curfew سیاسی حالات بگڑنے کی صورت میں لگایا تھا۔ اور Lockdown لوگوں کی صحت کے لیے حالات خطرناک ہونے کی صورت میں کیا گیا ہے۔ لیکن ایک معمولی سے فرق کے ساتھ معاشی نقصانات کا تخمینہ کم نہیں ہے۔
 پاکستان بھارت کے مقابلے میں ایک چھوٹی آبادی کا ملک ہے۔ پاکستان کی معیشت بھی Coronavirus اور  Lockdown سے متاثر ہو رہی ہے۔ روزانہ کی تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں جیسے سگنل پر رک گئی ہیں۔ اور گرین لائٹ کا انتظار ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے کرپشن سے پاکستان کا جتنا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں Lockdown سے یہ معاشی نقصان پھر بھی کم نظر آۓ گا۔ حکومت کے انتظامات بھی ان نقصانات کو کم سے کم سطح پر رکھنے میں ہیں۔ Coronavirus میں بھی بعض کاروباری لوگوں کے لیے موقع تھے۔ ان سے فائدہ اٹھایا جاتا۔ امریکہ اور یورپ کے ہسپتالوں کو Masks, Gloves, Surgical gowns اور دوسری Medical supply کی اشد ضرورت تھی۔ پاکستان میں Garments کمپنیاں مختصر وقت میں زیادہ لوگوں کو Hire کر کے یہ تیار کر سکتی تھیں۔ اور انہیں امریکہ اور یورپ بر آمد کر سکتی تھیں۔ امریکہ اور یورپ میں پاکستان کے سفارت خانے اور کونسلیٹ بھی اس سلسلے میں مدد کر سکتے تھے۔ کمپیوٹر اور Websites سے بھی مدد لی جا سکتی تھی۔ حکومت انہیں خصوصی اجازت دے دیتی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں میاں نواز شریف اور آصف علی زر داری جمے بیٹھیں ہیں۔ ان کے انتظار میں ہیں کہ وہ آئیں گے تو انہیں معاشی خوشحالی دیں گے۔ Coronavirus پر عمران خان حکومت کے انتظامات اور پالیسی کا زر داری اور نواز شریف حکومت میں دہشت گردی کے خلاف انتظامات اور پالیسی سے کیا جاۓ۔ یہ دونوں حکومتیں فوج سے یہ کام لے رہی تھیں۔ ان کے اپنے کوئی انتظامات تھے اور نہ ہی کوئی پالیسی تھی۔ پاکستان میں 60 ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ امریکہ کے اتنے فوجی تو افغانستان اور عراق میں بھی نہیں مرے تھے۔ جن کی جنگ  زر داری اور نواز شریف پاکستان لاۓ تھے۔ وزیر اعظم عمران خان Coronavirus سے جنگ لڑنے کا کام فوج سے نہیں لے رہے ہیں۔ سول حکومت Coronavirus  سے خود لڑ رہی ہے۔ حسب روایت سیاسی اور مذہبی لیڈر Sideline پر کھڑے ہیں۔ صرف باتیں کر رہے ہیں۔ چاۓ کے کپ سے مکھی نکال کر پیکھتے ہیں اور حکومت کی طرف دیکھ کر چاۓ کا گھونٹ لیتے ہیں۔ یہ سڑکوں کی سیاست کرنے والے لوگ ہیں۔ عوام کو انہیں Sideline ہی پر کھڑا رکھنا چاہیے۔ انہوں نے Lockdown سے متاثر ہونے والوں کی مدد میں وزیر اعظم کے امدادی فنڈ کیا دیا ہے۔ انہیں اپنی 3ماہ کی تنخواہ اس فنڈ میں دینے کا اعلان کرنا چاہیے۔
  امریکہ کا عالمی رول بھی اب بدل گیا ہے۔ Coronavirus سے دنیا جن مسائل اور حالات سے گزر رہی ہے۔ اس میں ہر ملک تنہا ہے۔ اور ہر ملک Coronavirus سے اپنے عوام کو بچانے کی لڑائی خود لڑ رہا ہے۔ ابھی 19 سال پہلے 9/11 کے بعد دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ کھڑی تھی۔ لیکن Coronavirus کے خلاف جنگ میں امریکہ دنیا سے الگ تھلگ ہے۔ اور یہ جنگ خود لڑ رہا ہے۔ اٹلی نیٹو کا رکن ہے۔ یورپی یونین میں شامل ہے۔ G-7 میں امریکہ کا ایک بڑا ٹریڈ نگ پارٹنر ہے۔ لیکن اٹلی کی مدد کے لیے کیوبا اور چین آۓ تھے۔ چین نے امریکہ کی بھی مدد کی ہے۔ امریکہ میں Medical supply کی کمی چین نے پوری کی تھی۔ چین نے ایران اور اسپین امدادی ٹیمیں بھیجی تھیں۔ فرانس اور جرمنی نے امریکہ کی 3M کمپنی کو Respirator Masks اورN95 کے آرڈر دئیے تھے اور ان کی ادائیگی بھی کر دی تھی۔ لیکن صدر ٹرمپ نے 3M کمپنی پر یہ برآمد کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ کیونکہ امریکہ میں ہسپتالوں کو ان کی بہت ضرورت تھی۔ فرانس اور جرمنی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ انہوں نے اس کی ادائیگی کر دی تھی۔ فرانس اور جرمنی میں ہسپتال اس کے انتظار میں تھے۔ انہیں اس کی اشد ضرورت تھی۔ یہ ہی کینیڈا کے ساتھ ہوا تھا۔ کینیڈا کی حکومت نے بھی 3M کمپنی سے Respirator Masks خریدے تھے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے کمپنی کو یہ کینیڈا بھیجنے سے روک دئیے تھے۔ کینیڈا میں اس پر خاصا احتجاج ہوا تھا کہ امریکہ کی انسانی قدریں کہاں ہیں۔ ہمارے ہسپتالوں میں Coronavirus سے لوگ مر رہے ہیں اور امریکہ نے ‏Medical supply پر پابندی لگا دی۔ برے حالات کا مطلب اب برے حالات ہیں۔ جس میں سب اپنا Survival پہلے دیکھ رہے ہیں۔
  19 سال میں امریکہ نے اپنے وسائل اور توانائی Wars Gambling میں لگا دی ہے۔ تمام جنگیں ہارنے کے بعد جب باہر آۓ ہیں تو دنیا بہت بدلی ہو ئی ہے۔ صدر ٹرمپ کو امریکہ تیسری دنیا کا ملک نظر آ رہا ہے۔ اور چین ترقی یافتہ بن گیا ہے۔ لیکن چین یہ تسلیم نہیں کر رہا ہے۔ جس پر صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہم چین کو ترقی یافتہ ملک تسلیم کرتے ہیں ورنہ ہمیں بھی ترقی پذیر ملک سمجھا جاۓ۔ Coronavirus  نے اب Developed and Developing World میں اس Segregation کو ختم کر کے سب کو ایک ہی World میں Lockdown کر دیا ہے۔                                                                                                                              
              

No comments:

Post a Comment