Sunday, April 5, 2020

What’s The Reason America Is In Iraq, When America Has Military Bases in Six Gulf Countries?


What’s The Reason America Is In Iraq, When America Has Military Bases In Six Gulf Countries?  


How much “very heavy price” is a very heavy price, when Iran is facing the very heavy price of Coronavirus

مجیب خان
Iran: Coronavirus Death reaches twelve thousand 

What Shah of Iran had said forty-five years ago, today Iranian leaders not saying different






  سوال یہ ہے کہ امریکی فوجیں اب عراق میں کیوں ہیں؟ یہاں امریکی فوجوں کی موجودگی سے امن میں مدد مل رہی ہے۔ اور نہ ہی استحکام آ رہا ہے۔ یہاں ہر ملک پر جنگ کے سیاہ بادل چھاۓ ہوۓ ہیں۔ لوگ یہاں ابھی تک امن کی روشنی سے محروم ہیں۔ انہیں یہاں میلوں امریکہ کے فوجی مشن ختم ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ فوجی مشن بھی Coronavirus کی طرح ہیں۔ ہر ایک کے سامنے مرنے کا خطرہ ہے۔ حالانکہ افغانستان کے مقابلے میں عراق کے حالات بہت بہتر ہیں۔ عراق میں سیاسی حکومت ہے۔ جو Functions کر رہی ہے۔ عراق میں ایک پارلیمنٹ بھی ہے۔ جس میں شیعہ سنی عیسائی اور کرد شامل ہیں۔ جنہیں عراقی عوام نے منتخب کیا ہے۔ عراق میں سیاسی جماعتیں ہیں۔ مذہبی جماعتیں ہیں۔ مذہبی لیڈر بھی ہیں۔ عراق کی اپنی فوج ہے۔ سیکورٹی ادارے ہیں۔ عراقی ملیشیا بھی ہے۔ عراق میں ملیشیا کی بنیاد جنرل David Petraeus نے رکھی تھی۔ جو عراق پر امریکی قبضہ کے وقت امریکی فوج کے کمانڈر تھے۔ امریکہ کے فوجی قبضہ کے خلاف عراقیوں کی مزاحمت میں تیزی آ گئی تھی۔ افغانستان کی طرح عراق بھی ایک قبائلی معاشرہ تھا۔ جنرل David Petraeus نے قبائل سے مل کر ان کے علاقوں میں امن رکھنے کے لیے ملیشیا بناۓ تھے۔ انہیں القا عدہ سے لڑنے کے لیے اسلحہ اور تربیت دی تھی۔ ایسے ملیشیا عراق میں شیعہ اور سنی علاقوں میں بناۓ تھے۔ ان کی القا عدہ کے خلاف لڑائی پھر شیعہ سنی جنگ بن گئی تھی۔ اس پس منظر کے ساتھ ملیشیا اب عراقی فوج کا حصہ ہے۔ یہ ملیشیا عراقی فوج کے ساتھ دہشت گروپوں سے لڑی تھی۔ عراق کو ابھی دہشت گرد گروپوں سے نجات ملی تھی کہ پھر پیچھے سے ISIS کے لشکر آ گیے تھے۔ اور انہوں نے عراق کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر کے اپنی ایک اسلامی ریاست قائم کر لی تھی۔ لیکن امریکہ نے ابھی تک دنیا کو یہ نہیں بتایا ہے کہ  ISIS کس کے Dollars یا Petro-Dollars سے وجود میں آئی تھی۔ ایران کی سرحد پر عراق میں ISIS سے ایران  کواتنا ہی بڑا خطرہ تھی کہ جیسے 8ہزار میل دور افغانستان میں القا عدہ کی موجودگی امریکہ کے لیے خطرہ تھی۔ اس خطرے کی وجہ سے ایران نے عراقی ملیشیا کی مدد کی تھی اور ایرانی فوج نے عراقی ملیشیا کے ساتھ مل کر ISIS سے عراق کے علاقے آزاد کر آۓ تھے۔ عراق سے ISIS کا مکمل خاتمہ کیا تھا۔ اس لڑائی میں ایرانی اور عراقی ملیشیا کے فوجی بھی مارے گیے تھے۔ لیکن عراق میں ISIS کا خاتمہ ہونے کا کریڈٹ ٹرمپ انتظامیہ نے لے لیا تھا۔ اور عراق میں مداخلت کرنے کا الزام ایران پر لگا دیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ ایران کو عراقی ملیشیا کی پشت پنا ہی کرنے کا الزام بھی دیا تھا۔ عراقی ملیشیا اور ایران میں قریبی تعاون کو خطہ میں امریکہ اور قریبی اتحادیوں کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ حالانکہ عراق سے ISIS کا خاتمہ کرنے کے بعد ایران اور عراقی ملیشیا شام کے علاقوں کو ISIS کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے لڑ رہے تھے۔ اسد حکومت کی مدد کر رہے تھے۔ یہ غلاظت بش اور ا و با مہ انتظامیہ یہاں چھوڑ کر گیے تھے۔ پھر تیسری انتظامیہ آ گئی۔ اس نے جو غلاظت صاف کر رہے تھے ان کے ساتھ شامل ہونے کی بجاۓ انہیں بکھری ہوئی غلاظت میں مداخلت کرنے کا الزام دینا شروع کر دیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے عراقی ملیشیا اور ایران کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ شام میں ISIS اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کے بارے میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ جیسے یہ  سعودی عرب اور اسرائیل کے Certified گروپ تھے۔ اور یہ انہیں ختم کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے ایران کو شام میں مداخلت کا الزام  دے کر اسے روکنے کی کوشش کی ہے۔
  عراق میں امریکی فوجیں صرف سعودی عرب اور اسرائیل کی پالیسی کے مطابق ہیں۔ ورنہ عراق میں امریکی فوجوں کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ کیونکہ امریکہ کی فوجیں کویت میں ہیں۔ متحدہ عرب امارت میں امریکی فوجیں ہیں۔ ا و مان میں ہیں۔ مغربی ایشیا میں امریکہ کا سب سے بڑا بحری اڈہ قطر میں ہیں۔ جہاں امریکہ کے طیارہ بردار بحری بیڑے کھڑے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی امریکہ کی اتنی بھاری فوجی موجودگی نہیں ہے کہ جتنی خلیج میں ہے۔ امریکہ کی فوجوں نے خلیج کا گھراؤ کر رکھا ہے۔ پھر اس کے باوجود عراق میں امریکہ کی فوجیں کیوں ہیں؟ جبکہ عراقی پارلیمنٹ نے عراق سے امریکی فوجیں واپس جانے کی قرار داد بھی منظور کی ہے۔ لیکن امریکہ کو عراقی عوام کے جذبات کا احترام ہے۔ اور نہ ہی عراقی پارلیمنٹ کی قرارداد کی کوئی اہمیت ہے۔ امریکی فوجیں بھی عراق میں ایک ڈکٹیٹر کی فوجوں کی طرح عراقی عوام پر مسلط ہیں۔ غیر ملکی فوجوں کی یہاں موجودگی سے Destabilize Status quo بن گیا ہے۔
  گزشتہ 20 سال امریکہ نے زیادہ وقت Tribal معا شروں میں گزارے ہیں۔ 19 سال امریکہ نے Afghan Tribal معاشرے میں گزارے ہیں۔ تقریباً 17 سال Tribal Iraq  معاشرے میں، 11سال یمن Tribal Yemen معاشرے میں القا عدہ کے خلاف جنگ میں اور Saudi Tribal Politics میں گزرے ہیں۔ اور اب امریکہ کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں میں Tribalism  نظر آ رہا ہے۔ مہذب جمہوری قدریں، اخلاقی اصولوں کی باتیں، قانون کی بالا دستی کا کلچر غائب ہو گیا ہے۔ اور Tribal Culture آ گیا ہے۔ Might is Right’ بہت بڑھ گیا ہے۔ امریکہ  دنیا کا ایک  بڑا Tribe بن گیا ہے۔ صدر بش نے افغانستان میں سب سے پہلے Tribes  بحال کیے تھے۔ جنہیں طالبان نے بالکل ختم کر دیا تھا۔ افغان Tribe نے پھر امریکہ کو ان کے ساتھ Tribe بن کررہنا سکھایا تھا۔ Tribal سیاست سکھائی تھی۔ اور امریکہ کا یہ Tribalism عرب دنیا کی سیاست میں نظر آ رہا ہے۔ ایران سے دشمنی میں امریکہ بھی عرب Tribes کے ساتھ ہے۔ خطہ میں ایران کے دشمن دنیا میں امریکہ کے دشمنوں سے بہت زیادہ ہیں۔ عرب Tribes By hook or by crook ایران میں Regime change چاہتے ہیں۔ اور Tribes سازشیں کرتے ہیں۔ گزشتہ سال اور پھر اس سال جنوری میں کئی مرتبہ ایران کے خلاف فوجی کاروائی کے لیے کیس بنانے کی سازش کی گئی تھی۔ پہلے سعودی عرب میں آئل تنصیبات پر راکٹوں سے حملہ میں ایران کو ملوث کرنے کی سازش کی گئی تھی۔ ہوتیوں نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس حملہ کا الزام ایران کو دیا گیا تھا۔ اس کے بعد پھر عراق میں امریکہ کے فوجی بیس پر حملہ ہوا تھا۔ جس میں امریکہ کے دو کنٹریکٹر مارے گیے تھے۔ اور کچھ فوجی زخمی ہوۓ تھے۔ اسے عراقی ملیشیا جسے ایران کی حمایت تھی۔ اس حملہ کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ امریکہ نے اس حملہ کے جواب میں عراق میں Drone سے حملہ کر کے ایرانی جنرل اور اس کے ساتھ عراقی ملیشیا کے کمانڈر کو مار دیا تھا۔ عراقی حکومت نے اس پر شدید احتجاج کیا تھا۔ اور اسے عراقی حکومت کی اجازت کے بغیر عراق کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ جبکہ ملیشیا کو عراقی فوج کا حصہ بتایا تھا۔ عراقی وزیر اعظم نے بتایا کہ ایرانی جنرل ان کی دعوت پر بغداد آۓ تھے اور دوسرے دن صبح ساڑھے آٹھ بجے ان سے ملاقات ہونا تھی۔ عراقی حکومت نے اس واقع کی تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ میں کہا کہ امریکی بیس پر حملہ ISIS نے کیا تھا۔ ایران شام میں ISIS کے خلاف اسد حکومت کی مدد کر رہا تھا۔ ایران کے خلاف یہ سازش ISIS نے کی تھی۔ لیکن اس کا انتقام امریکہ نے اس ایرانی جنرل اور عراقی ملیشیا کمانڈر کو ہلاک کر دیا تھا۔ جنہوں نے اسد حکومت کی فوج کے ساتھ شام کے علاقوں سے ISIS کا قبضہ ختم کیا تھا۔ ایران کے دشمن یہ سازش پھر کریں گے۔ امریکہ ایران کو الزام  دے گا۔ اور اس پر Drone سے میزائل گراۓ گا۔ صدر ٹرمپ نے ایران کو امریکی فوجوں پر حملہ کی ‘Very heavy price’ کی دھمکی دی ہے۔ حالانکہ ایران پہلے ہی امریکہ اور مغربی طاقتوں کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کرنے کی  ایک ‘Very heavy price’ ادا کر رہا ہے۔ اگر ایران یہ معاہدہ نہیں کرتا تو شاید اسے ‘Very heavy price’ نہیں دینا پڑتی۔ ایران نے علاقائی اور عالمی امن کے لیے یہ ایٹمی معاہدہ کیا تھا۔ لیکن ایک Belligerent administration اور Arab Tribes نے مل کر علاقائی اور عالمی امن پھر خطرے میں ڈال دئیے ہیں۔ Tribes اپنی سلامتی اور بقا صرف Hostility میں دیکھتے ہیں۔
  سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں کی Hostile Polices کی وجہ سے ان کے وسائل روزانہ، ہر ہفتہ، ہر ماہ، ہر سال Drain ہوتے جا رہے ہیں۔ دس سال پہلے اقتصادی طور پر یہ کہاں تھے؟ اور پانچ سال پہلے یہ کہاں تھے؟ اور آج یہ ہر طرف سے کتنے vulnerable ہیں۔ ان کی اقتصادی، سیاسی اور سیکورٹی حالات کے کنٹرول میں ہیں۔ اور حالات پر امریکہ کا کنٹرول ہے۔ جس طرح Coronavirus curve کبھی اوپر جاتا ہے اور کبھی نیچے آ جاتا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں کا اقتصادی، سیاسی اور سیکورٹی Curve بھی اوپر نیچے ہو رہا ہے۔ ایران کے تیل کی درآمد پر امریکہ کی پابندی کے بعد سعودی عرب نے اپنی تیل کی پیداوار بڑھا دی تھی۔ اور اس کمی کو پورا کیا تھا۔ آج صدر ٹرمپ سعودی عرب سے تیل کی پیداوار میں کمی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ دنیا میں تیل بہت ہو گیا ہے۔ تیل کی قیمتیں بہت زیادہ گر گئی ہیں۔ امریکہ میں تیل کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی ہیں۔ تیل کی پیداوار میں اضافہ کا ایک بڑا حصہ سعودی عرب یمن جنگ کے اخراجات پر خرچ کر رہا تھا۔ تیل کی قیمتوں میں حیرت انگیز کمی کی وجہ سے سعودی عرب کو اپنے تمام ترقیاتی پروجیکٹ پر کام بند کرنا پڑیں ہیں۔ چند ماہ قبل صدر ٹرمپ دنیا کو یہ بتا رہے تھے کہ 'سعودی عرب 400بلین ڈالر امریکہ میں invest کر رہا ہے۔ امریکہ سے کھربوں ڈالر کا اسلحہ خرید رہا ہے۔ امریکہ میں Job Create کر رہا ہے۔' لیکن آج Boing کمپنی دیوالیہ ہو رہی ہے۔ ہزاروں Jobs خطرے میں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ہر صورت میں Boing کو بچائیں گے۔ Coronavirus نے عالمی معیشت کی جڑیں ہلا دی ہیں۔ یہ عالمی مالیاتی نظام کے Survival کی جنگ بن رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ Post Coronavirus میں کون مضبوط معیشت کے ساتھ آگے آۓ گا اور کون کمزور معیشت کے ساتھ پیچھے ہو جاۓ گا۔   















No comments:

Post a Comment