Wednesday, April 22, 2020

Yes, “Mistake is a Mistake” But, In The Last Twenty Years What Has America Learned From Its Mistakes?


   Yes, “Mistake is a Mistake” But, In The Last Twenty Years What Has America Learned From Its Mistakes?

After nineteen years of Confrontation with the Taliban, America has to dialogue with the Taliban. China is a country of 1.3billion people, a Nuclear and Economic Power, can America win in a confrontation with China?
مجیب خان
Chicago's Millennium Park, during the lockdown, the most visited tourist site in Illinois's

France's coronavirus lockdown, Eiffel Tower in the Background, April 2,2020



Human destruction in Syria




   فرانس کے صدر Emmanuel Macron نے کہا ہے "پریذیڈنٹ ٹرمپ نے ان سے Coronavirus Pandemic کے دوران عالمی جنگ  بندی پر اتفاق کیا ہے۔ " صدر Macron نے کہا 'برطانیہ اور چین نے بھی اصولی طور پر عالمی جنگ بندی پر رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔ اور روس کے صدر پو تن کے ترجمان نے کہا روس بھی ایک ایسے اعلامیہ پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہے۔' ایک فرانسیسی ریڈیو سے انٹرویو میں صدر Macron نے کہا ' امریکہ کے صدر ٹرمپ، برطانیہ کے وزیر اعظم Boris Johnson، اور چین کے صدر Xi Jinping  سب نے  اس کی توثیق کی ہے کہ وہ عالمی جنگ بندی پر دستخط کریں گے۔'
صدر Macron نے کہا ' چین کے صدر Xi Jinping نے مجھ سے اتفاق کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے مجھ سے اتفاق کیا ہے۔ وزیر اعظم Boris Johnson نے مجھ سے اتفاق کیا ہے۔ میرے خیال میں صدر پو تن بھی ضرور اتفاق کریں گے۔ فرانس، برطانیہ، امریکہ، روس اور چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں۔ عالمی جنگ بندی کے لیے پانچ مستقل اراکین کی حمایت قابل عمل ہو گی۔ موجودہ عالمی حالات میں صدر Macron کی تجویز اور کوششوں سے کوئی اختلاف نہیں کرے گا۔ Coronavirus کی وجہ سے دنیا کا کاروبار بند ہو گیا ہے۔ دنیا میں لوگ زندگی اور موت میں پھنس گیے ہیں۔ موت کے خوف نے انہیں گھروں میں نظر بند کر دیا ہے۔ شام کے کھنڈرات شہروں اور امریکہ اور یورپ کے ویران شہروں میں مناظر مختلف نہیں ہیں۔ صرف اتنا فرق ہے کہ امریکہ اور یورپ میں شہروں کی رونقیں کھنڈرات نظر آ رہی ہیں۔ لیکن شام میں انسانیت کھنڈرات بن گئی ہے۔ Coronavirus کی وجہ سے دنیا میں جنگیں بھی بند ہو گئی ہیں۔ اگر سعودی عرب آج امریکہ کو ایک ٹیریلین ڈالر ایران پر حملہ کرنے اور حکومت تبدیل کرنے کی پیشکش کرے تو شاید انتظامیہ اس پیشکش پر غور کرنا بھی مناسب نہیں سمجھے گی۔ Coronavirus نے لفظ War اب Obsolete کر دیا ہے۔  Hennery Kissinger نے پچھلے سال بیجنگ میں چین کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد کہا تھا "چین کے ساتھ Trade War عالمی جنگ بن جاۓ گی۔" صدر Macron نے اس عالمی جنگ بندی کی بات کی ہے۔ امریکہ نے چین کے خلاف کئی محاذ پر جنگیں کرنے کی باتیں کرنا شروع کر دی تھیں۔ Trade war کے بعد ایک دوسری جنگ  South China Sea  میں Cultivate کی جا رہی تھی۔ تیسری طرف تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت اور امریکہ کی حمایت چین کے لیے War of Nerve بن رہی تھی۔ چوتھی طرف ہانگ کاںگ کے لوگوں کو بیجنگ حکومت کے خلاف سرکشی پر اکسایا جا رہا تھا۔ جیسے یہ ہانگ کانگ کو چین سے دور کرنے اور تائیوان کے قریب لے جانے کی تحریک تھی۔ چین کے ساتھ ان جنگوں کا ماحول بنانے کے ساتھ روس کو بھی نئی جنگوں میں گھسیٹا جا رہا تھا۔ روس جس نے 21ویں صدی کو Mankind کے لیے امن عالمی استحکام اور اقتصادی خوشحالی کی صدی بنانے کے لیے سرد جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن امریکہ کے لیڈر روس کو گھسیٹ کر پھر سرد جنگ کی محاذ ار ا ئی میں لے آۓ ہیں۔ 21ویں صدی کی نسل کو روس دشمن ہونے کا پیغام دے رہے ہیں۔ روس جنگوں سے بھاگ رہا ہے۔ لیکن امریکہ اور نیٹو جنگیں دینے روس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ Ukraine میں امریکہ اور نیٹو کی مداخلت نے روس کو یہ جنگ دی ہے۔ روس کی قیادت نے انتہائی نظم و ضبط اور تحمل کے ساتھ حالات کو قابو میں رکھا ہے۔ اور روس کو جنگ کی تباہیوں سے بچایا ہے۔ لیکن امریکہ اور نیٹو ملکوں نے روس کے خلاف اقتصادی بندشیں لگا کر اس کی معیشت تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ روس کا شام میں مداخلت کرنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ لیکن جب شام میں Obama-Biden انتظامیہ کا Adventurism اس سطح پر پہنچ گیا تھا کہ جہاں کابل میں نجیب اللہ حکومت کے خلاف طالبان کا Adventurism پہنچ گیا تھا۔ اور روس بشار السد کا نجیب اللہ کا انجام دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ روس نے اسد خاندان کو بچایا تھا۔ انسانیت کو بچایا تھا۔ شام کا وجود آج صرف روس کی وجہ سے ہے۔
   عالمی حالات کے اس پس منظر میں صدر Macron نے عالمی جنگ بندی پر زور دیا ہے۔ امریکہ، فرانس، برطانیہ، روس اور چین عالمی جنگ بندی کے لیے تیار ہو گیے ہیں۔ Coronavirus سے عالمی معیشت  کو جو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ اسے دیکھ کر عالمی جنگ بندی ایک انتہائی معقول فیصلہ ہے۔ عالمی جنگ بندی کا فیصلہ صدر ا و با مہ انتظامیہ میں ہونا چاہیے تھا۔ صدر ا و با مہ  امن کا نوبل ایوارڈ وصول کرنے کے بعد انسانیت کو امن دیتے۔ لیکن صدر ا و با مہ نے انسانیت کو Drone دئیے تھے۔ امن کو نقصان پہنچانے والی جنگیں دی تھیں۔ 19سال میں Warmongering سے امریکہ کو جتنا نقصان پہنچا ہے۔ تقریباً Coronavirus سے بھی اتنا ہی نقصان ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ صرف امریکہ نے مڈل ایسٹ میں 7 ٹیریلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ جبکہ Coronavirus کی وجہ سے Lockdown کے نتیجے میں عالمی معیشت کا نقصان تقریباً 7ٹیریلین ہو گا۔ یہ بلین اور ٹیریلین 19سال میں اگر انسانیت کی فلاح و بہبود اور صحت عامہ پر خرچ کیے جاتے تو شاید دنیا میں Lockdown نہیں ہوتا۔ صد ام حسین، معمر قد ا فی، بشار ا لا اسد اور ایران کے آیت اللہ  بھی امریکہ کا یہ نقصان نہیں چاہتے ہوں گے۔ معمر قد ا فی نے اپنے تمام مہلک ہتھیار امریکہ کے حوالے کر دئیے تھے۔ اسد حکومت نے 9/11 کے بعد القا عدہ اور اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف امریکہ سے مکمل تعاون کیا تھا۔ بش انتظامیہ نے القا عدہ کے عرب دہشت گردوں سے تحقیقات کرنے کے لیے انہیں اسد حکومت کے حوالے کیا تھا۔ لیکن پھر ا و با مہ انتظامیہ نے صدر اسد کو Butcher of Damascus کہا تھا۔ صدر صد ام حسین نے کلنٹن انتظامیہ اور پھر بش انتظامیہ سے عراق کے تیل کوDenationalize اور دوسرے علاقائی امور پر Dialogue کی پیشکش کی تھی۔ مڈل ایسٹ کے بہت سے تنازعہ Dialogue سے حل ہو سکتے تھے۔ لیکن امریکہ نے Confrontation اور War کا راستہ اختیار کیا تھا۔ یہ امریکہ کی Post-Cold War Policy تھی۔ اور یہ امریکی پالیسی دنیا میں تباہیاں پھیلانے کے بعد اب امریکہ کے لیے Disastrous ثابت ہو رہی ہیں۔ چین ایک ابھرتی طاقت حقیقت بن رہی ہے۔ Hawkish, Confrontationists, Warmongers امریکہ کو چین سے بھر پور تصادم کے راستے پر لے جا رہے ہیں۔ تائیوان کو فوری طور پر تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ نومبر میں ہانگ کانگ میں مظاہرین کی حمایت میں کانگریس نے جو قانون منظور کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے چین کی سخت مخالفت کے باوجود اس قانون پر دستخط کیے تھے۔ گزشتہ ہفتہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ہانگ کانگ میں آزادی کے حامیوں کی گرفتاریوں کی سخت مذمت کی ہے۔ سینیٹر Lindsey Graham نے کہا " چین پر Pandemic tariff امریکی شہریوں کے نقصانات ادا کرنے کے لیے لگایا جاۓ۔" دنیا میں کوئی بھی چین کے ساتھ  Confrontation نہیں چاہتا ہے۔ امریکہ میں بھی جو Nonsense سوچ نہیں رکھتے ہیں وہ چین کے ساتھ ایک Commonsense پالیسی کی حمایت میں ہیں۔ افغانستان میں 19سال طالبان سے Confrontation سے کچھ حاصل نہیں ہونے کے بعد امریکہ کو بالا آخر طالبان سے Dialogue کے راستے پر آنا پڑا تھا۔ جبکہ چین ایک بہت بڑا ملک ہے۔ آبادی 1.3 بلین ہے۔ طالبان تو غریب تھے۔ لیکن چین ایک Economic Power ہے۔ Nuclear Power بھی ہے۔ چین کے عوام Economic and Nuclear Nationalist ہیں۔ طالبان سے Confrontation پر امریکہ نے ایک ٹیریلین ڈالر خرچ کیے تھے۔ لیکن چین کے ساتھ Confrontation کے بجاۓ صرف Dialogue کرنے سے امریکہ کو ایک ٹیریلین ڈالر منافع ہو سکتا ہے۔        
                                     

No comments:

Post a Comment