Friday, May 29, 2020

Love for The Indian Government’s Actions in Kashmir, Hates China’s Actions in Hong Kong, Rewards India And Punishes China


  Love for The Indian Government’s Actions in Kashmir, Hates China’s Actions in Hong Kong, Rewards India And Punishes China

Hong Kong National Security Law is China’s Patriot Act, rising extremism in Hong Kong in the name of freedom, and Democracy is just politics. The world has seen these politics in Egypt, Syria, Libya, and in Iraq
مجیب خان
Hong Kong, Vandalism has no place in freedom and Democracy

 Out of control protesters in Hong Kong 

Freedom movements in occupied Kashmir and democratic actions of the Indian government


Indian  army's brutality against unarmed people in occupied Kashmir



  تائیوان میں لوگ  اگر سڑکوں پر آ جائیں اور حکومت سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ امریکہ سے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ منسوخ کرے اور چین کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات فروغ دینے کو اہمیت دے۔ حکومت ان کے یہ مطالبے ماننے کو تیار نہیں ہے۔ مظاہرین Extreme ہوتے جا رہے ہیں۔ اور تائیوان بھی ہانگ کانگ بن رہا ہے۔ تائیوان کی حکومت ان کے مطالبے ماننے کو تیار نہیں ہے۔ مظاہرے کرنے والوں کے خلاف حکومت نے سخت کاروائی شروع کر دی ہے۔ اس صورت حال پر سیکرٹیری آف اسٹیٹ اور پریذیڈنٹ کا رد عمل کیا ہو گا؟ امریکہ کی کیا پالیسی ہو گی؟ تائیوان کے عوام کی جمہوری آواز کو دبانے میں کیا حکومت کے غیر جمہوری اقدامات کو سپورٹ کیا جاۓ گا؟ ہانگ کانگ میں 10ماہ سے پر تشدد مظاہرے ہو رہے ہیں۔ امن و امان کی صورت حال تہس نہس ہو گئی ہے۔ املاک اور کاروبار تباہ ہو رہے ہیں۔ شہریوں کی زندگی روزانہ کے فسادات سے اجیرن ہو گئی ہے۔ جن حکومتوں کے بیجنگ سے اختلافات ہو گیے ہیں۔ وہ ہانگ کانگ کے حالات کو اپنے ایجنڈہ میں استحصال کر رہے ہیں۔ بیجنگ کے ساتھ ان کے جو مطالبے ہیں۔ وہ ہانگ کانگ میں فسادات کی ہواؤں کا دباؤ بڑھا کر بیجنگ سے انہیں منو انا  چاہتے ہیں۔ جمہوریت اور آزادی کے بارے میں اگر یہ مخلص ہوتے تو مصر میں آج آزادی اور جمہوریت کی روشنیاں ہر طرف نظر آتی۔ جن کی تاریخ جمہوریت اور آزادی سبوتاژ کرنے کی ہے۔ ان کی ہانگ کانگ میں آزادی اور جمہوریت کی حمایت میں صرف سیاست ہے۔
  چین کی حکومت نے ہانگ کانگ میں شر پسندوں کے ساتھ بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ طاقت کے بھر پور استعمال سے گریز کیا ہے۔ ہانگ کانگ کی صورت حال سے فوج کو دور رکھا ہے۔ ہانگ کانگ کی مقامی انتظامیہ اور پولیس Law and Order بحال کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، سنگاپو میں اگر ہانگ کانگ جیسے حالات کا سامنا ہو گا تو وہ بھی یہی کریں گے جو چین کی حکومت کر رہی ہے۔ ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو Carrie Lam نے گزشتہ ستمبر میں اس بل کو واپس لے لیا تھا۔ جو اس تحریک کا سبب تھا۔ جس میں مشتبہ مطلوب ملزم اور خطہ میں بھگوڑے مجرم حوالے کرنے کا کہا گیا تھا۔ چین اور تائیوان بھی اس بل میں شامل تھے۔ بل کا نفاذ ہونے سے لوگوں کو یہ تشویش ہو رہی تھی کہ ہاںگ کانگ کے شہری اور یہاں دورے پر آنے والے بھی اس بل کے دائرہ اختیار میں ہوں گے۔ اور یہ بل چین کا نظام قانون سمجھا گیا تھا۔ تاہم ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے یہ بل واپس لے لیا تھا۔ لیکن احتجاجی تحریک کے لیڈروں نے تمام گرفتار مظاہرین رہا کرنے، پولیس کی زیادتیوں اور اس کی طرز کارکردگی کی تحقیقات کرانے، اور احتجاج کرنے والوں کے خلاف سرکاری بیانات واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن ہانگ کانگ کی انتظامیہ نے ان سے پہلے مظاہرے ختم کرنے کا کہا تھا۔ اور اس کے بعد ان کے مطالبوں پر غور کرنے کہا تھا۔
 ماضی میں کمیونسٹ حکومتیں احتجاجی تحریکیں بھر پور طاقت سے کچل دیتی تھیں۔ لیکن چین کی حکومت نے ہانگ کانگ میں اس طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ بلکہ ہانگ کانگ کی ایڈمنسٹریشن کے ساتھ مل کر کام کرنے کو اہمیت دی ہے۔ صورت حال کو صبر و تحمل کی حدود میں رکھا ہے۔ اس لیے 10 ماہ سے جاری مظاہروں میں صرف 2افراد مرے ہیں۔ جس میں ایک پولیس کا اہل کار تھا جو مظاہرہ کرنے والوں کے پتھر سے ہلاک ہوا تھا۔ چین ہانگ کانگ کو One country two system میں رکھنا چاہتا ہے۔ اور یہ ہانگ کانگ کے نظام میں تبدیلی نہیں چاہتا ہے۔ اور یہ اس کے مفاد میں ہے۔ ہانگ کانگ ایک Develop Economic Center ہے۔ اور چین اسے برقرار ر کھے گا۔ ہانگ کانگ کی اس حیثیت سے چین کے جو علاقہ اس کے قریب ہیں انہیں اقتصادی ترقی میں مدد ملے گی۔ ہانگ کانگ، Shanghai, Guangzhou, Wuhan اور بعض دوسرے بڑے اقتصادی Region دینا سے تجارت کے سینٹر ز ہوں گے۔ Hong Kong Security Law دراصل Patriot Act کی Copy ہے۔ ہانگ کانگ میں Extremism بڑھ رہا ہے۔  بیرونی عناصر Extremists کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ چنانچہ اسے طاقت کے ذریعے روکنے کی بجاۓ قانونی طریقوں سے ختم کرنے کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ ہانگ کانگ کی انتظامیہ کو عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ عوام 10ماہ سے Extremists کے ہنگاموں اور توڑ پھوڑ کے اثرات معیشت پر محسوس کر رہے ہیں۔ تجارتی اور کاروباری طبقہ میں نام نہاد آزادی تحریک کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔ عوام ہانگ کانگ کا امن بحال کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔
  کمیونسٹ چین نے ہانگ کانگ میں ابھی تک ایسے Ruthless فیصلے اور اقدامات نہیں کیے ہیں۔ جو ایک جمہوری بھارت میں حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں کیے ہیں۔ اور کشمیریوں کو ان کی آزادی اور حق خود مختاری سے محروم کر دیا ہے۔ ان کی مرضی کے برخلاف بھارت کا نظام کشمیریوں پر مسلط کر دیا ہے۔ 5لاکھ بھارتی فوج کا کشمیر پر قبضہ ہے۔ کشمیری اپنے گھر کا دروازہ کھولتے ہیں بھارتی فوجی مشین گن کے ساتھ انہیں کھڑا نظر آتا ہے۔ کشمیری تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دئیے گیے ہیں۔ نشریاتی اداروں پر بندشیں لگا دی ہیں۔ ا نٹر نیٹ موبائل فون بند کر دئیے ہیں۔ کشمیریوں کی منتخب اسمبلی ختم کر دی ہے۔ کشمیری لیڈروں کو نظر بند کر دیا ہے۔ مودی نے اپنا آدمی کشمیر میں گورنر بنا کر بیٹھا دیا ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک ہانگ گانگ سے متعلق عالمی سمجھوتوں کی خلاف ورزی کرنے پر چین کے خلاف کاروائی کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن بھارت میں مودی حکومت کی کشمیر سے متعلق تمام عالمی سمجھوتوں، اقوام متحدہ کی قرار دادوں، بھارت کے آئین، کشمیریوں کو حق خود مختاری دینے کے عہد کی خلاف ورزی، بھارت کے اتنی زیادہ خلاف ورزیاں کرنے پر امریکہ اور مغربی ممالک بھارت کو چین کے مقابلے پر ایشیا کی بڑی طاقت بنانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت اور ظلم کی رپورٹیں انسانی حقوق کی تنظیموں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹوں میں ان کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ ہانگ کانگ میں کم از کم ایسی مثالیں نہیں ہیں۔ کمیونسٹ چین نے ہانگ کانگ پر اپنا تسلط قائم نہیں کیا۔ چین کی کمیونسٹ فوجیں ہانگ کانگ میں لوگوں کے گھروں میں داخل نہیں ہوئی ہیں۔ چین نے ہانگ کانگ کی معیشت تباہ نہیں کی ہے۔ ہانگ کانگ کی دولت نکال کر بیجنگ نہیں لے گیے ہیں۔ چین نے ہانگ کانگ کو One country two system میں رکھا ہے۔ اور چین اسے برقرار رکھنے میں سنجیدہ ہے۔
  امریکہ کا دنیا کی واحد عالمی طاقت کا مقام با ظاہر اختتام پر پہنچ رہا ہے۔ اس لیے ٹرمپ انتظامیہ بلکہ یہ سلسلہ بش انتظامیہ اور پھر ا و با مہ میں بھی تھا کہ عالمی قوانین اور عالمی سمجھوتوں کو نظر انداز کر دیا جاتا تھا۔ اور صرف امریکہ کی سیکورٹی کے مفاد میں عالمی فیصلے ہونے لگے تھے۔ خواہ یہ دنیا کے 192 ملکوں کے مفاد میں ہوتے تھے یا نہیں۔ بھارت کو  معلوم ہے کہ اسے Backward سے Forward میں آنے میں 21ویں صدی گزر جاۓ گی۔ اس لیے اسے بھی عالمی سمجھوتوں اور قوانین کی پرواہ نہیں ہے۔ چین عالمی طاقت کے Status کے قریب  پہنچ گیا ہے۔ اس لیے چین عالمی سمجھوتوں اور قوانین کو اہمیت دے گا۔ ان پر عملدرامد بھی کرے گا۔ اور ایک ذمہ دار ، Law abiding power ہونے کی مثال قائم کرے گا۔ چین صرف اسی صورت میں دوسری طاقتوں سے منفرد ہو گا۔                      

No comments:

Post a Comment