Friday, May 22, 2020

Trump Administration’s China Policy: Whining, Blaming, Bluffing, Complaining, Demonizing and Talking About Good Trade Relations with China


  Trump Administration’s China Policy: Whining, Blaming, Bluffing, Complaining, Demonizing and Talking About Good Trade Relations with China


Would Mr. Navarro tell the American people how much Americans businesses benefited from economic relations with China and how many Americans became new millionaires in the last thirty years?

مجیب خان


US President Donald Trump and China's President Xi Jinping during the G20 Summit in Osaka, Japan


  ٹرمپ انتظامیہ Coronavirus پر غلط فہمی اور تضاد میں تھی۔ ایک طرف ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ' چین نے ہمیں Coronavirus کے انتہائی خطرناک ہونے کے بارے میں ابتدا میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ پھر دوسری طرف پریذیڈنٹ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتہ کہا کہ 'انہیں 4 بہترین اور اعلی ماہرین نے بتایا تھا کہ 'یہ Virus ادھر [امریکہ] نہیں آۓ گا۔ ادھر [چین] ہی رہے گا۔' ماہرین کا یہ مشورہ سننے کے بعد پریذیڈنٹ ٹرمپ شاید چین میں اس Virus کے نتائج دیکھنے کا انتظار کرتے رہے۔ اور اس غلط فہمی میں رہے کہ 'یہ Virus ادھر ہی رہے گا اور ادھر نہیں آۓ گا۔' پھر یہ Virus جب ادھر سے ادھر[امریکہ] آ گیا تو پریذیڈنٹ ٹرمپ و ر لڈ ہیلتھ ارگنا ئزیشن  [W.H.O] کو الزام دینے لگے کہ یہ چین اور W.H.O کی ملی بھگت سے ادھر سے ادھر آیا ہے۔ اور W.H.O نے یہ ہمیں نہیں بتایا تھا۔ تاہم W.H.O کے حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس Virus کہ انتہائی خطرناک ہونے کے بارے میں امریکہ یورپ اور تمام ملکوں کو آگاہ کر دیا تھا۔ اب W.H.O کو الزام دینے اور اس پر چین کا Puppet ہونے کا لیبل لگانے سے پہلے پریذیڈنٹ ٹرمپ کو ان 4 اعلی ماہرین سے پوچھنا چاہیے تھا کہ انہوں نے یہ کس بنیاد پر کہا تھا کہ 'یہ Virus ادھر ہی رہے گا اور ادھر نہیں آۓ گا۔' اس لیے امریکہ میں Coronavirus کو روکنے کے سلسلے میں پہلے سے کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی۔ سب کی توجہ چین میں اس Virus کے نتائج دیکھنے پر تھی۔ امریکہ کی چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے نتیجہ میں ایشیائی ملکوں میں یہ Conspiracy theory گردش کر رہی ہے کہ یہ Virus جب چین میں پھیلنے لگتا اور چین کی حکومت کے لیے اسے کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا تو اس صورت میں پھر غیر ملکی کمپنیاں اور سرمایہ چین سے جانے پر مجبور ہو جاتے۔ یہ Virus چین کی اقتصادی ترقی تباہ کر دیتا۔ اور چین کا دنیا کی اول درجہ کی اقتصادی طاقت  بننے کا خواب شاید کبھی پورا نہیں ہوتا۔ لیکن چین کی قیادت نے جس طرح اس Virus کو چین میں پھیلنے سے روکا ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ چین کی حکومت کو ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہونے کا شاید پہلے سے خدشہ تھا۔ اور حکومت اس کے لیے تیار تھی۔ Virus کو Wuhan میں روک دیا تھا۔ چین ایک بہت بڑی تباہی سے بچ گیا تھا۔
 حیرت کی بات یہ تھی کہ Coronavirus امریکہ پہنچنے سے پہلے Qom ایران آیا تھا۔ جو آیت اللہ ؤں کی تعلیم و تربیت کا مرکزی شہر تھا۔ یہ Virus تہران سے پہلے یہاں کیسے آیا تھا؟ یہاں کئی آیت اللہ Coronavirus سے مر گیے تھے۔ Qom سے یہ Virus پھر ایران کے دوسرے شہروں میں آیا تھا۔ تحقیقات یہ ہونا چاہیے کہ Virus تہران سے پہلے Qom کیسے آیا تھا؟ آیت اللہ کبھی چین نہیں گیے تھے۔ چین سے کبھی کوئی Qom نہیں آیا تھا۔ لیکن Coronavirus خلیج میں سب سے پہلے Qom ایران میں آیا تھا۔ 5ہزار ایرانی Coronavirus سے مر گیے تھے۔ جبکہ امریکہ کی غیر انسانی اقتصادی بندشیں علیحدہ لوگوں کو مار رہی تھیں۔ ایران نے Virusپھیلانے کا الزام کسی کو نہیں دیا تھا۔ لیکن امریکہ نے چین اور W.H.O کو یہ الزام دیا ہے کہ انہوں نے Virus کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنے میں غفلت برتی تھی۔ W.H.O ایک عالمی ادارہ ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کا ادارہ نہیں ہے۔ اس ادارے میں دنیا بھر کے لوگ کام کرتے ہیں۔ جن میں امریکی بھی شامل ہیں۔ اگر W.H.O نے چین کی وجہ سے Virus کے بارے میں دنیا کو نہیں بتایا تھا۔ تو اس میں کام کرنے والے امریکہ برطانیہ فرانس وغیرہ کے شہری یہ ضرور اپنی حکومتوں کو بتاتے۔ لیکن اس ادارے میں کام کرنے والوں نے ادارے کی کارکردگی کو Defend کیا ہے۔
 19سال سے دنیا کو خطرناک کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں سے انسانیت کو لاحق خطروں کے بارے میں بتایا جا رہا تھا۔ امریکہ نے ان خطروں کا خاتمہ کرنے کے لیے جنگیں لڑی تھیں۔ لیکن آج دنیا ایک خطرناک  Biological virus میں زندگی اور موت کی کشماکش میں ہے۔ غریب ملکوں میں Coronavirus سے زیادہ بھوک اور افلاس سے اموات ہونے کے خطرے بڑھتے جا رہے ہیں۔ دنیا کی معیشت پر تالے پڑنے سے غریب ملک انتہائی شدید اقتصادی بحران میں آ گیے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کو پریشانی یہ ہے کہ Virus چین سے آیا ہے۔ اور دنیا ابھی تک یہ تسلیم نہیں کر رہی ہے اور اس کی تحقیقات ہونے کی حمایت بھی نہیں کر رہی ہے۔ جبکہ چین کو غریب ملکوں میں اقتصادی سرگرمیاں بحال کرنے کی فکر ہے۔ تاکہ ان ملکوں میں لوگوں کو Coronavirus اور بھوک و افلاس دونوں سے بچایا جاۓ۔ اس مشن میں چین W.H.O کے ساتھ بھر پور تعاون کر رہا ہے۔ اور اس ادارے میں شامل ملکوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ چین نے W.H.O کو 2 بلین ڈالر دئیے ہیں۔ امریکہ نے اس ادارے کی ادائیگی بند کر دی ہے۔ جنیوا میں W.H.O کے سالانہ و زار تی اجلاس میں 100 سے زیادہ ملکوں نے اس ادارے کو سراہا یا ہے۔ اس ادارے کے بارے میں پریذیڈنٹ ٹرمپ کے موقف کو کوئی سپورٹ نہیں ملی ہے۔ سابقہ دو انتظامیہ کی طرح ٹرمپ انتظامیہ میں بھی کچھ Nonsense head advisors جو ایک طرف چین سے کشیدگی بڑھانے اور مسلسل تصادم کا رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اور دوسری طرف عالمی اداروں سے قطع تعلق کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ان میں پریذیڈنٹ ٹرمپ کی پارٹی کے بعض سینیٹر ز بھی شامل ہیں۔ جن کا 20 سال سے امریکہ کو دنیا میں Confrontation کی طرف لے جانے کا Behavior سے سب با خوبی واقف ہیں۔ ایسے Nonsense head advisors سے امریکہ کو دور رکھنے لیے امریکی عوام نے Donald J. Trump کو منتخب کیا تھا۔ لیکن یہ المیہ ہے کہ پریذیڈنٹ ان ہی Advisors کے راستوں پر چلے گیے ہیں۔
 30سال میں چین اور امریکہ کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات نے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے میں ضم کر دیا ہے۔ امریکہ کی اقتصادی خوشحالی  چین کی اقتصادی ترقی سے جوڑ گئی ہے۔ چین کی اقتصادی ترقی کے بغیر امریکہ کی اقتصادی خوشحالی ممکن نہیں ہے۔ امریکہ کی اقتصادی خوشحالی چین کی اقتصادی ترقی ہے۔ امریکہ میں China hawk اسے امریکہ کی معیشت کے لیے ایک خطرہ کہتے ہیں۔ امریکہ کا یہ ایک کلچر ہے کہ جب کسی ملک یا اس ملک کی قیادت سے امریکہ کو اختلاف ہو جاتا ہے تو اس ملک یا قیادت کے خلاف برائیوں کے Gutter کھل جاتے ہیں۔ 24/7 اس کی برائیاں بیان کرنے کی مہم شروع ہو جاتی ہے۔ چین کے ساتھ 30سال میں امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے جو فائدے ہیں۔ ان کی پریذیڈنٹ ٹرمپ بات کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے ٹریڈ مشیر Peter Navarro اعتراف کرتے ہیں۔ یہ امریکہ کے Great ہونے کے ثبوت نہیں ہیں۔ حالانکہ Billion Dollar Walmart Empire چین کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہے۔ Amazon کو صرف چند سالوں میں Billion Dollar Empire کس نے بنایا ہے؟ Peter Navarro ٹی وی کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر امریکی عوام کو یہ نہیں بتاتے ہیں کہ چین کے ساتھ تجارتی تعلقات سے امریکہ میں کتنے نئے Millionaire بن گیے ہیں۔ Apple company امریکہ کی پہلی Trillion-Dollar  کمپنی چین کی 1.2 بلین لوگوں کی مارکیٹ میں بنی ہے۔ جو کمپنیاں امریکہ میں خسارے میں تھیں وہ چین میں منافع میں ہیں۔ چین نے امریکی کمپنیوں کو زبردست منافع دیا ہے۔ اور امریکی Consumers کو Purchasing power دی ہے۔ Nike shoes جو چین میں 10ڈالر میں بنتے ہیں۔ امریکہ میں وہ 190-180 ڈالر میں خریدے جاتے ہیں۔ President Trump اور Peter Navarro امریکی کمپنی Nike کے اس Huge Profit کی بات نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ Nike کو Tax break دیا جاتا ہے۔ اور اس Tax break کو چین سے وصول کرنے کے لیے Trade war شروع کی ہے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ امریکی عوام کو صرف یہ بتاتے ہیں کہ چین نے امریکہ سے ٹریڈ میں 500بلین ڈالر بناۓ تھے۔
 تائیوان چین سے کبھی جنگ نہیں کرے گا۔ اور نہ ہی چین تائیوان سے جنگ کرے گا۔ تائیوان کے صنعت کاروں نے چین میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ اور چین کی کمپنیوں نے بھی تائیوان میں سرمایہ کاری ہے۔ تائیوان چین کا چوتھا بڑا ٹریڈ نگ پارٹنر ہے۔ چین اور تائیوان کے سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں میں گہرے تعلقات ہیں۔ اور چین کے لیے یہ بہت اہم ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تائیوان میں چین مخالف حکومت ہے۔ اس لیے چین نے تائیوان کے حالیہ انتخاب میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ چین نے 40سال میں تائیوان کی اقتصادی ترقی کو برقرار رکھا ہے۔ چین اور تائیوان کے عوام میں رابط بڑھاۓ ہیں۔ ہزاروں تائیوانی چین جاتے ہیں۔ اسی طرح چین سے بھی لوگ تائیوان جاتے ہیں۔ People to People Relations آج کی دنیا میں سب سے بہترین سفارت کاری ہے۔ امریکہ کو Venezuela میں Maduro government پسند نہیں ہے۔ امریکہ نے Venezuela پر اقتصادی بندشیں لگا کر لوگوں کو غریب اور بیمار کر دیا ہے۔ ایران پر اقتصادی بندشیں لگا کر ایرانی عوام کے لیے اذیتیں پیدا کر دی ہیں۔ عراق، شام لیبیا تباہ کر دئیے ہیں۔ تائیوان کے ساتھ چین نے ایسا نہیں کیا ہے۔ تائیوان کے لوگوں کو غیر انسانی بندشیں لگا کر اذیتیں نہیں دی ہیں۔ نہ ہی ان کی معیشت تباہ کی ہے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کہتے ہیں امریکہ نے مڈل ایسٹ میں 7ٹیریلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ لیکن امریکی عوام کو یہ نہیں بتاتے ہیں کہ مڈل ایسٹ میں کتنے ٹیریلین کے امریکہ نے ہتھیار فروخت کیے ہیں۔                                                                                                                                                              

No comments:

Post a Comment