Keep the Record Straight, Colin Powell Has Served
Three Republican Administrations, President Reagan Lied About Afghanistan and
in Iran-Contra Scandal, President George H. Bush Lied to Saddam Hussain and Started
The First Gulf War, President George W. Bush Lies were The Grand Finale and
Colin Powell Has Defended Each President Lies With Lies
If President Trump is lying,
he has been forced by investigation and impeachment to defend the previous
Administration’s lies. The message was don’t change lies with true facts, the same thing happened with President Bill Clinton
مجیب خان
Colin Powell, during his time as National Security adviser, accompanies President Reagan as he Leaves the White House on Dec16, 1988 |
سابق پریذیڈنٹ جارج ڈ بلو بش نے ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار Joe Biden کی تائید کی ہے۔ اور اب سابق
سیکریٹری آف اسٹیٹ کولن پاول نے CNN کے پروگرام State
of the Union میں کہا ہے کہ وہ نومبر میں انتخاب میں پریذیڈنٹ کو ووٹ نہیں دیں
گے کیونکہ وہ Lair ہیں اور ڈیموکریٹک
پارٹی کے صدارتی امیدوار Joe
Biden کو ووٹ دیں گے۔ کولن پاول نے وضاحت کرتے ہوۓ کہا 'ان کے سابق نائب
صدر Joe Biden سے تعلقات ہیں۔
میں ایک سماجی اور سیاسی معاملہ میں Joe Bidenکے بہت قریب تھا۔ اور میں نے ان کے ساتھ 35،40
سال کام کیا ہے۔ اور اب وہ امیدوار ہیں اور میں انہیں ووٹ د و ں گا۔' کولن پاول
شاید یہ بھول گیے ہیں کہ وہ تین ری پبلیکن انتظامیہ رونالڈ ریگن، جارج ایچ بش اور
جارج ڈ بلو بش میں شامل تھے۔ اور تینوں پریذیڈنٹ کا امریکی عوام سے جھوٹ بولنے کا
ریکارڈ موجود ہے۔ واشنگٹن میں سب سے کامیاب انتظامیہ اسے سمجھا جاتا ہے۔ جس نے سب
سے زیادہ جھوٹ بولے تھے۔ امریکی عوام کے بارے میں واشنگٹن میں یہ عام سوچ ہے کہ وہ
بہت جلد بھول جاتے ہیں۔ اور انہیں یاد نہیں رہتا ہے کہ کس حکومت میں کیا ہوا تھا؟
یا کس پارٹی کے پریذیڈنٹ نے کیا کہا تھا؟ اور کیا کیا تھا؟ امریکی عوام کے جلد
بھول جانے کی اس عادت سے دونوں پارٹیاں فائدے اٹھاتی ہیں۔ Accountability کی اہمیت ضروری نہیں سمجھی جاتی
ہے۔ ری پبلیکن پارٹی کا پریذیڈنٹ جب جھوٹ بولتا ہے۔ تو اسے قومی سلامتی کے مفاد
میں قانونی تحفظ دے دیا جاتا ہے۔ پھر پریذیڈنٹ کے پہلے جھوٹ کو کابینہ کے رکن
دوسرے اور تیسرے جھوٹ سے اسے Defend کرتے ہیں۔ ڈیموکریٹک
پارٹی کی انتظامیہ بھی اس سلسلے کو جاری رکھتی ہے۔ 41st پریذیڈنٹ جارج ایچ بش نے صدر صد ام حسین سے جھوٹ بولا
تھا۔ انہیں Honest
answer نہیں دیا تھا۔ صدر صد ام حسین نے پریذیڈنٹ بش سے پوچھا تھا کہ 'وہ
کویت میں اپنی فوجیں بھیج رہے ہیں۔ امریکہ کا اس پر کیا رد عمل ہو گا؟' بغداد میں
امریکی سفیر نے صدر صد ام حسین کو پریذیڈنٹ بش کا یہ پیغام دیا تھا کہ 'امریکہ
عربوں کی لڑائی میں ملوث نہیں ہو گا۔' لیکن 41st پریذیڈنٹ بش نے عربوں کی لڑائی میں ملوث ہونے کی
ابتدا کی تھی۔ کولن پاول چیرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف تھے۔ امریکہ اس وقت سے عربوں
کی لڑائی میں سر سے پاؤں تک ملوث ہے۔ اور جنرل کولن پاول کو اپنے Boss کے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے
جھوٹ بولنا پڑے تھے۔ صدر صد ام حسین سے جھوٹ بول کر انہیں Gotcha’ ‘ کر
لیا تھا۔ عراق کے خلاف پہلی جنگ میں بھی جھوٹ بولا گیا تھا۔
پریذیڈنٹ کلنٹن نے بھی ری پبلیکن انتظامیہ
کی عراق کے بارے میں اس ‘Gotcha’ پالیسی کو جاری
رکھا تھا۔ اور ان کی انتظامیہ کو اس کے لیے جھوٹ بولنا پڑے تھے۔ حالانکہ عراق کے
بارے میں یہ رپورٹیں آ رہی تھیں کہ عراق میں مہلک ہتھیارتباہ ہو گیے تھے۔ بندشیں
عراق پر اتنی خوفناک تھیں کہ بچے عورتیں بوڑھے مرد یہ کہہ کر مر جاتے تھے کہ “We can’t take Breath” عراق کا کیس
جھوٹ پر تھا اور آخر تک جھوٹ تھا بلکہ آج بھی جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ ڈیموکریٹک
انتظامیہ کو اپنے 8سال اقتدار میں عراق کا مسئلہ ضرور حل کرنا چاہیے تھا۔ کلنٹن
انتظامیہ میں دہشت گردی کے کئی خوفناک واقعات ہوۓ تھے۔ جن میں بڑی تعداد میں
امریکی مارے گیے تھے۔ اس دہشت گردی کا الزام ا سا مہ بن لادن کو دیا گیا تھا۔ لیکن
حیرت کی بات تھی کہ اسے پکڑنے سے گریز کیا تھا۔ حالانکہ بن لادن کو پکڑنے کے کئی
موقع آۓ تھے۔ شاید پریذیڈنٹ کلنٹن کی قومی سلامتی کے مشیر نے بن لادن کو حراست میں
لینے کو قومی سلامتی کے مفاد میں خطرہ سمجھا تھا۔ 43rd پریذیڈنٹ جارج ڈ بلو بش انتظامیہ نے اقتدار میں آنے کے بعد اس کی
تحقیقات نہیں کی تھی کہ بن لادن کو کیوں پکڑا نہیں تھا۔ جبکہ اسے بہت آسانی سے پکڑ
نے کا موقع بھی تھا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ کیا اس کا 9/11 سے کوئی تعلق تھا؟ 9/11 کے بعد Homeland Security Department اور Patriot Act اتنی تیزی سے وجود میں آۓ تھے کہ
جیسے یہ پہلے سے تیار کر لیے گیے تھے۔ آئین اور قانون جیسے Suspend ہو گیے تھے۔ پریذیڈنٹ بش نے 9/11 کے بعد جس طرح نفرت میں سخت باتیں کی تھیں۔ بن لادن ‘Dead or Alive’ پیش کرنے کا
حکم دیا تھا۔ افغانستان پر حملہ کے لیے پریذیڈنٹ بش نے یہ وجہ بتائی تھی کہ طالبان
نے بن لادن اور القا عدہ کو پناہ دی تھی۔ اور افغانستان میں Biological اورChemical ہتھیار بنانے کی لیبارٹریاں تھیں۔ امریکہ پر 9/11 کی پلاننگ افغانستان میں ہوئی
تھی۔ لیکن امریکہ نے افغانستان میں طالبان اور القا عدہ کے خلاف جب فوجی کاروائی
کی تھی تو امریکہ کو افغانستان سے 9/11 حملے کے منصوبہ
کے ثبوت ملے تھے۔ اور نہ ہی القا عدہ کی مہلک ہتھیار بنانے کی لیبارٹریاں ملی
تھیں۔ کولن پاول اس وقت سیکرٹیری آف اسٹیٹ تھے اور کونڈا لیزا رائس پریذیڈنٹ بش کی
قومی سلامتی امور کی مشیر تھیں۔ اور یہ دونوں پریذیڈنٹ ریگن انتظامیہ میں قومی
سلامتی امور اسٹاف میں تھے۔ اور افغان جہاد میں بن لادن اور اس کے ساتھیوں کے بارے
میں انہیں علم تھا۔ بن لادن سی آئی اے کے بہت قریب تھا۔ سی آئی اے نے اسے اور اس
کے ساتھیوں کو کمیونسٹ فوجوں پر حملے کرنے کی تربیت دی تھی۔ کابل میں ماسکو نواز
حکومت کے اداروں کو بموں سے اڑانے کے طریقے سکھاۓ تھے۔ جنہیں بعد میں یہ امریکہ کے
خلاف استعمال کر رہے تھے۔
حالانکہ افغانستان کے بڑے شہروں میں
جہاں تعلیم یافتہ اور با شعور افغان رہتے تھے۔ وہاں کمیونسٹ فوجوں کو کسی مزاحمت کا
سامنا نہیں تھا۔ کابل اور افغانستان کے دوسرے بڑے شہروں میں زندگی معمول کے مطابق
تھی۔ اگر افغانستان
میں بیرونی مداخلت نہیں ہوتی تو افغانستان میں سو ویت فوجوں کا مسئلہ جلد حل ہو
جاتا۔ لیکن جب یہ دیکھا کہ افغان شہروں میں سو ویت فوجوں کے خلاف کوئی بڑی مزاحمت
نہیں تھی۔ یہ دیکھ کر سی آئی اے نے دیہی افغان علاقوں قصبوں اور دیہاتوں میں مقامی
زبان میں طیاروں سے Pamphlets گراۓ تھے۔ جس میں کہا گیا تھا کہ سو ویت کمیونسٹ
فوجیں افغانستان میں آ گئی ہیں۔ اور وہ مسجدیں تباہ کر رہی ہیں۔ افغانستان سے
اسلام ختم کیا جا رہا اور اسے ایک کمیونسٹ ملک بنایا جا رہا ہے۔ دیہاتوں اور قصبوں
کے لوگ سیدھے سادھے ہوتے ہیں۔ اور وہ یہ Pamphlets دیکھ کر خوفزدہ ہو گیے تھے۔ اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ گھروں اور
قصبوں سے بھاگنے لگے تھے۔ حالانکہ وسط ایشیا کی اسلامی ریاستیں سو ویت کمیونسٹ Orbit میں تھیں۔ لیکن وہاں قدیم اور
تاریخی مسجدیں بھی تھیں۔ اور اسلام بھی زندہ اور سلامت تھا۔ بلکہ ماسکو میں بھی کئی
سو سال کی تاریخی مسجدیں موجود تھیں۔ مسلمان وہاں عبادت بھی کرتے تھے۔ انہیں اس
طرح کھنڈرات نہیں بنایا تھا جیسے پریذیڈنٹ ا و با مہ کی قیادت میں سعودی عرب اور
خلیج کے حکم رانوں کے اتحاد میں شام میں مسلمانوں کے قدیم اور تاریخی مقدس مقامات
کو کھنڈرات بنایا گیا ہے۔ افغانستان میں کمیونسٹ فوجیں جس طرح آئی تھیں۔ اسی طرح
سو ویت فوجیں مشرقی جرمنی، پولینڈ، چیکو سلا و کیہ، رو ما نیہ اور مشرقی یورپ کے
دوسرے ملکوں میں آئی تھیں۔ لیکن امریکہ نے وہاں کمیونسٹ فوجوں کے خلاف Christian Jihad دور رکھا تھا۔ اور افغانستان میں
جہاں دیہی علاقوں قصبوں اور دیہاتوں میں لوگ انتہائی Rigid Islamic تھے۔ انہیں جہاد ی
بنایا تھا۔ ان جہادیوں نے ایک طرف شہروں میں تعلیم یافتہ روشن خیال لبرل اور
پروگریسو افغانوں کے خلاف جہاد کیا تھا اور دوسری طرف کمیونسٹ فوجوں کے خلاف دہشت
گردی کی تھی۔ کولن پاول اس وقت 40th پریذیڈنٹ ریگن
کے قومی سلامتی امور کے مشیر تھے۔ پھر 43rd پریذیڈنٹ جارج
بش نے کہا افغان جہادی امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ اور ان کا
مکمل خاتمہ کیا جاۓ گا۔ کولن پاول اب سیکرٹیری آف اسٹیٹ تھے۔ کولن پاول نے قومی
سلامتی امور کے مشیر کی حیثیت سے پریذیڈنٹ ریگن کو اس وقت امریکہ کے مفاد میں افغان
جہاد کے بارے میں جو مشورے دئیے تھے۔ کولن پاول کو اب سیکرٹیری آف اسٹیٹ بن کر اپنے
وہ مشورے امریکہ کی قومی سلامتی کے خلاف
نظر آ رہے تھے۔ حکومتوں کے فیصلے جب جھوٹ پر ہوتے ہیں۔ قوم کے نقصانات جانی اور
مالی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اور کامیابی ناممکن ہو جاتی ہے۔ کولن پاول اب Constitution and Rule of Law کی بات کر رہے
ہیں۔ Constitutionکو پریذیڈنٹ جارج بش نے Piece of Paper کہا تھا۔ 9/11 کے بعد قومی سلامتی کو Rule of Law پر برتری دی گئی تھی۔ قومی سلامتی
کے نام پر Sovereign Countries پر فوجی حملے
ہو رہے تھے۔
بے شمار لوگوں کو دہشت گردی کے الزام
میں مار دیا تھا۔ حالانکہ This
is in America’s and also a universal law that a person who charge in a crime is
innocent until proven guilty in the court of law.
لیکن امریکہ میں کسی نے پریذیڈنٹ کو اس قانون کی خلاف ورزی سے نہیں روکا تھا۔
عراق میں مہلک ہتھیاروں پر عالمی برادری کے سامنے سیکرٹیری آف اسٹیٹ کولن پاول کی
تاریخی تقریر جس میں عراق میں مہلک ہتھیاروں کے ثبوت پیش کیے تھے۔ اور بعد میں جب
عراق میں بش انتظامیہ کے تمام ثبوت جھوٹے نکلے تھے۔ الزام انٹیلی جینس کو دے دیا۔ لاکھوں
لوگ اس جھوٹ کے نتیجے میں مر گیے تھے۔ ہزاروں امریکی فوجی عمر بھر کے لیے زخمی ہو
گیے تھے۔ لیکن حیرت کی بات تھی کہ کوئی Accountability نہیں ہوئی تھی۔ عراق اور افغانستان بش انتظامیہ میں شامل کابینہ
کی Dark Legacy ہے۔ اگر ان کی Accountability ہوتی تو Obama-Biden انتظامیہ شاید شام اور لیبیا میں
کبھی پریذیڈنٹ جارج بش کا عراق اور افغانستان راستہ اختیار نہیں کرتی۔
No comments:
Post a Comment