Friday, June 5, 2020

Racism in America Is Not an Issue for a New Black Elite Class, It’s a Topic to Talk, Black Elite and White Elite Has Good Racism Free Relations And Obama-Biden administration is an Example of These Relations


 Racism in America Is Not an Issue for a New Black Elite Class, It’s a Topic to Talk, Black Elite and White Elite Has Good Racism Free Relations And Obama-Biden administration is an Example of These Relations

Under the first Black President Obama’s administration, how many Black people were lifted from the welfare system and entered in a decent workforce? What was the percentage of Black poverty during President Obama’s eight years? Under President Obama’s administration, in Africa, an Elite military drone had killed innocent black Africans. With white European leaders, President Obama overthrew Qaddafi’s government, which was spending Billions and Billion Dollars on Africa’s human development.

مجیب خان

President Trump walks from the White House to nearby St.John's Episcopal Church along with other officials 

Protest in front of the Trump Tower in New York

Protesters Block Traffic in Down Town Chicago

Police face off with protesters on Interstate 35 near Austin, Texas, Police Department headquarter  



 چین کو گرانے کی سازشیں اگر کامیاب نہیں ہو رہی ہیں تو نظر یہ آتا ہے کہ God is with Communist China۔ چین کو پہلے ایک خطرناک Coronavirus کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ چین کی قیادت نے بڑی کامیابی سے اپنے عوام کو اس وبا سے نکال لیا تھا۔ پھر ہانگ کانگ میں انتشار پھیلا کر چین کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن خدا نے یہ سازش بھی ناکام کر دی ہے۔ اور اب یہ سازش کرنے  والوں کے خلاف Backfire ہو رہی ہے۔ 29مئی جمعہ کی دوپہر وائٹ ہاؤس کے لان پر پریس کے سامنے پریذیڈنٹ ٹرمپ نے اپنی ہانگ کانگ پالیسی بیان کی تھی۔ اور ہانگ کانگ سے امریکہ کے خصوصی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ چین کی مجرمانہ حرکتوں پر مبنی شکایتوں کا تھیلا کھول دیا تھا۔ چین کی ٹریڈ اور سیکورٹی عملی کاروائیوں اور ہانگ کانگ میں شہری آزادیوں کے خلاف اس کی سخت کاروائی پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔ ہانگ کانگ کے ساتھ امریکہ کے خصوصی ٹريڈ تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ نے کہا ہانگ کانگ پر اب ایکسپورٹ کنٹرول کا اطلاق ہو گا۔ تاکہ مخصوص نوعیت کی ایڈوانس ٹیکنالوجی چین برآمد کرنے سے روکا جاۓ۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے ساتھ سیکرٹیری آف اسٹیٹ، سیکرٹیری خزانہ، سیکرٹیری کامرس، قومی سلامتی امور کے مشیر بھی موجود تھے۔ یہ چین پالیسی بیان  پریذیڈنٹ ٹرمپ کی پریس کانفرنس بتائی گئی تھی۔ لیکن پریذیڈنٹ ٹرمپ پریس کے سامنے یہ بیان دے کر چلے گیے۔ پریس نمائندوں میں سے کچھ آوازیں سوالوں کی اٹھی تھیں۔ لیکن پریذیڈنٹ ٹرمپ نے ان کے جواب نہیں دئیے تھے۔ وائٹ ہاؤس کے Rose Garden میں پریذیڈنٹ ٹرمپ کے اس بیان کے کچھ دیر بعد یہ کہا گیا کہ ان فیصلوں پر فوری عملدرامد کا نہیں کہا گیا ہے۔ بلکہ متعلقہ محکمہ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے بیان میں فیصلوں پر اپنی رپورٹیں تیار کریں گے۔ اور اس کے بعد ان کا نفاذ ہو گا۔ ہانگ کانگ میں 300 کے قریب امریکی کمپنیاں اور مالیاتی ادارے ہیں۔ جبکہ 85 ہزار امریکی ہانگ کانگ میں رہتے ہیں۔ امریکہ کی فوری طور پر ہانگ کانگ سے Divorce اتنی آسان نہیں ہو گی۔ ہانگ کانگ کی انتظامیہ کے اعلی حکام اور کاروباری طبقہ نے چین کے اقدامات کی حمایت کی ہے۔ اور ہانگ کانگ کے استحکام میں چین کے فیصلوں کو اہم قرار دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ چین کے ساتھ سیاسی اور سفارتی تعلقات خراب کرنے کا مشن سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo کا ہے۔ اور ٹریڈ تعلقات میں اختلافات پیدا کرنے میں پریذیڈنٹ ٹرمپ کے ٹریڈ مشیر Peter Navarro سب سے آ گے ہیں۔
 یہ اتفاق تھا کہ اسی دن سورج غروب ہونے کے بعد امریکہ کے تمام بڑے شہروں میں جو تجارت اور کاروبار کے اہم سینٹر ز تھے۔ نیویارک، شکاگو، لاس انجلیس، Miami، Atlanta، واشنگٹن ڈ ی سی، Philadelphia، Minneapolis اور کئی دوسرے شہروں میں ایک سیاہ فام امریکی کی پولیس آفسر کے تشدد کے نتیجے میں موت پر مظاہرے اور احتجاج شروع ہو گیے تھے۔ ہر طرف پولیس کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ پولیس کی گاڑیاں جلائی جا رہی تھیں۔ پولیس اسٹیشن پر حملے ہو رہے تھے اور انہیں آگ لگا دی تھی۔ آگ کے شعلے اور سیاہ دھواں ہانگ کانگ میں بھی دیکھے جا رہے ہوں گے۔ یہ احتجاجی مظاہرے پھر لوٹ مار کی تحریک بن گیے تھے۔ بڑے بڑے اسٹور و ں اور دوکانوں کو لوٹا جا رہا تھا۔ ان میں توڑ پھوڑ ہو رہی تھی۔ بعض مقامات پر اسٹور بھی جلا دئیے تھے۔ ایک سیاہ فام امریکی کی موت پر احتجاج Vandalism کی تحریک میں بدل گئی تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ اور کانگریس میں سب ہانگ کانگ کو بھول گیے تھے۔ فوج نے وائٹ ہاؤس کو حفاظتی گھیرے میں لے لیا ہے۔ دنیا کو یقین نہیں آ رہا ہے کہ امریکہ میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ چین کی حکومت نے پہلی مرتبہ کسی دوسرے ملک کی داخلی صورت حال پر بیان دیا ہے۔ اور امریکی حکومت سے اقلیت کے حقوق کا احترام کرنے کا کہا ہے۔ جنوبی افریقہ کی حکومت نے George Floyd کی ہلاکت پر احتجاج میں امریکہ کی سیکورٹی فورسز ز سے اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کا کہا ہے۔ روس کی دفتر خارجہ نے ایک بیان میں امریکی حکام پر امریکیوں کے پرامن احتجاج کے حق کا احترام کرنے پر زور دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل اور کئی دوسری حکومتوں نے بھی ایسے ہی بیان جاری کیے ہیں۔
 دہشت گردوں سے جنگ میں پریذیڈنٹ بش نے کہا تھا 'ان سے یہاں لڑنے کے بجاۓ یہ جنگ ان سے ان کی سرزمین پر لڑی جاۓ گی۔ ' لیکن ان سے ان کی سر زمین پر یہ جنگ پھر یہاں [امریکہ] آ گئی تھی۔ مشیر و ں نے  پریذیڈنٹ ٹرمپ  سے کہا تھا کہ Coronavirus ادھر نہیں آۓ گا اور ادھر[چین] رہے گا۔ لیکن یہ ادھر سے امریکہ آ گیا تھا۔ Virus سے امریکہ میں ابھی تک لوگ مر رہے ہیں۔ 2ماہ سے کاروبار بند ہیں۔ لوگ گھروں میں محصور ہیں۔ 40ملین امریکی بیروزگار ہیں۔ اس Virus سے ہونے والا اقتصادی نقصان Trillions میں ہیں۔ ان حالات میں ٹرمپ انتظامیہ ہانگ کانگ میں Vandalism پھیلانے والوں کو سپورٹ کر رہی تھی۔ اور اب یہ Vandalism امریکہ آ گیا ہے۔ امریکہ جل رہا ہے۔ امریکی ‎Virus سے مر رہیں۔ Vandalism سے کاروبار تباہ ہو رہے ہیں۔ لوٹ مار ہو رہی ہے۔ اسٹور و ں کو لوٹا جا رہا ہے۔ پولیس کی Brutality پر احتجاج ہو رہا ہے۔ دوسری طرف اس احتجاج میں Vandalism کے خلاف بھی احتجاج ہو رہا ہے۔ گزشتہ 10دن سے احتجاجی مظاہروں میں املاک کو جلا نے اور کاروباروں کو لوٹنے کا نقصان ایک بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کے پاس Jobs تھے۔ وہ بھی ختم ہو گیے ہیں۔ انہیں انصاف کون دے گا؟ امریکہ میں نسل پرستی اب تک جتنے بھی پریذیڈنٹ آۓ ہیں ان کا ایشو بھی تھا۔ یہ 45th President میں ایجاد نہیں ہوا ہے۔ اس ایشو کو کسی انتظامیہ میں دبا دیا جاتا تھا۔ کسی انتظامیہ میں اچھالا جاتا تھا۔ اسے داخلی اور عالمی صورت حال پر انتظامیہ کے Behavior کے مطابق Exploit کیا جاتا تھا۔ پولیس کو Uncheck Powers 9/11 کے بعد پریذیڈنٹ بش نے دئیے تھے۔ جس میں Shoot to killed کا اختیار بھی تھا۔ اور پریذیڈنٹ ا وبا مہ نے اسے تبدیل نہیں کیا تھا۔
 پریذیڈنٹ ا و با مہ نے اپنے 8سال دور اقتدار میں Black Americans کے لیے کیا کیا تھا؟ ا و با مہ نے 8سال میں کتنے Black Americans کو غربت سے نکالا تھا۔ انہیں Welfare system سے آزاد کیا تھا۔ پریذیڈنٹ ا و با مہ نے صرف Black Elite Class فروغ دی تھی۔ اور اس Black Elite Class کے White Elite Class کے ساتھ مفادات کو مشترکہ بنایا تھا۔ اس لیے پریذیڈنٹ ا و با مہ کے 8سال اقتدار کے پریذیڈنٹ بش کے 8سال سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔ جنگوں اور دہشت گردی کے خلاف Bush Doctrine کو پریذیڈنٹ ا و با مہ نے Share کیا تھا۔ اور امریکہ کا پہلا Black President بن کر اپنی Foreign Policy Doctrine نہیں واضح کی تھی۔ افریقہ کو پریذیڈنٹ ا و با مہ غربت افلاس اور انتشار میں چھوڑ کر گیے ہیں۔ افریقہ کو یورپ نہیں بنایا تھا۔ لیبیا کے پریذیڈنٹ کرنل قد ا فی کی دنیا میں ایک واحد حکومت تھی جس نے افریقہ کو یورپ بنانے کا منصوبہ دیا تھا۔ اور افریقہ میں یہ ایجوکیشن، صحت عامہ، Infrastructures اور Job Creation پر کھربوں پیٹرو ڈالر خرچ کر رہی تھی۔ پریذیڈنٹ ا و با مہ نے قد ا فی حکومت کے ساتھ مل کر افریقہ کی ترقی میں تعاون کرنے کے بجاۓ۔ یورپ کے White Leaders اور اپنے White Advisors کی باتوں پر عمل کیا تھا اور قد ا فی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ افریقہ میں آج ہر طرف غربت اور بیروزگاری ہے۔ امریکہ میں ہر کوئی White and Black Racism کی بات کر رہا ہے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کو بھی Racist ہونے کا الزام دیا جاتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کوئی اسرائیل میں حکومت کو Racist ہونے کا الزام نہیں دیتا ہے۔ جہاں افریقہ کے Black Jews تیسرے درجے کے شہری ہیں۔ پریذیڈنٹ ا و با مہ نے بھی 8 سال میں اسرائیلی حکومت سے کبھی Black Jews کو مساوی حقوق دینے کی بات نہیں کی تھی۔ حالانکہ اسرائیل میں Black ہزاروں سال سے Jews ہیں۔ جبکہ اسرائیل میں White Jews کئی سو سال سے Jews ہیں۔ اور یہ سب یورپ سے آۓ ہیں۔ اور ان کی Typical European Mentality  ہے۔ اس لیے یہ Racist Jews  ہیں۔ پریذیڈنٹ ا و با مہ نے 8سال میں کبھی اس پر غور بھی نہیں کیا ہو گا کہ American Black Jews اگر اسرائیل میں آباد ہوں گے تو ان کے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ اور White American Jews اگر اسرائیل میں آباد ہوں گے تو ان کے ساتھ کیسا سلوک ہو گا؟                            

No comments:

Post a Comment