Trump Administration’s New Sanctions on War
Destitute People of Syria: Why Did Obama-Biden Administration Support
Earthquake-Like Terrorism in Syria?
Not president, but America is
unfit for a sole global Leader
مجیب خان
The destruction caused by terrorism in Syria, they called it the Syrian civil war |
Syria |
Syria |
The Destruction in Libya, how America and NATO brought the destruction to Libya |
Libya |
پریذیڈنٹ Bashar al- Assad کو خواہ کتنا ہی Demonized کیا جاۓ اس سے کوئی فرق نہیں پڑا
ہے۔ پریذیڈنٹ اسد نے بڑی بہادری سے اپنے وطن عزیز کا دفاع کیا ہے۔ شام کی سلامتی
اور یکجہتی کو زندگی دی ہے۔ اور یہ شاندار فتح پریذیڈنٹ اسد کی فوج اور عوام کی بھر
پور حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ شام ایک چھوٹا سا ملک، انتہائی محدود وسائل، ہر
طرف شام کی سلامتی کے دشمن خطرناک سانپوں کی طرح تھے۔ جن کی پشت پر امریکہ، برطانیہ،
فرانس، سعودی عرب، اسرائیل، بحرین، متحدہ عرب امارات تھے۔ پریذیڈنٹ اسد کی قیادت
میں فوج اور عوام نے انہیں ذلت آمیز شکست دی ہے۔ اور ‘Truth and falsehood’ کی جنگ میں ‘Truth’ کی فتح ہوئی
ہے۔ اللہ نے ‘falsehood’ کو ذلت دی ہے۔
اللہ اسد حکومت، فوج اور شام کے جیالے عوام کے ساتھ ہے۔ امریکہ کو مصری عوام کی
جمہوریت اور آزادی کا تحفظ کرنے میں شکست ہوئی تھی۔ جہاں سعودی عرب اور اسرائیل کے
گڈ جوڑ نے سازش کر کے جمہوریت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اور ایک فوجی جنرل کو مصری
عوام پر مسلط کر دیا تھا۔ Obama-Biden انتظامیہ سعودی
عرب-اسرائیل گڈ جوڑ کے سامنے اتنی کمزور تھی کہ یہ مصری عوام کو فوجی حکومت کے ظلم
و بربریت میں چھوڑ کر بھاگ گئی تھی۔ پھر Obama-Biden انتظامیہ کے پاس 20 بلین ڈالر مصر میں جمہوریت بحال کرانے کے لیے
نہیں تھے۔ کیونکہ سعودی شاہ نے مصر کی فوجی حکومت کو 20بلین ڈالر دئیے تھے۔ اور
امریکہ کو یہ چیلنج کیا تھا کہ وہ 20 بلین ڈالر لے کر آۓ اور مصر میں اپنی جمہوریت بحال کر لے۔ عراق میں شیعہ اکثریت میں
تھے۔ لیکن صد ام حسین سنی تھے۔ Bush-Cheney انتظامیہ نے صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹا کر عراق
شیعاؤں کو دے دیا تھا۔ عراق ایران کے Influence میں آ گیا تھا۔ سعودی
عرب اور اسرائیل عراق میں اس تبدیلی سے خوش نہیں تھے۔ ان کے ذہن میں یہ آیا کہ شام
میں سنیوں کی اکثریت ہے۔ اور یہاں شیعہ اقلیت میں ہیں۔ لہذا شام میں سنی حکومت
ہونا چاہیے۔ وائٹ ہاؤس دنیا میں حکومتیں تبدیل کرنے کا ایک Walmart بنا ہوا تھا۔ جس منصوبے کو اسرائیل Endorse کرے امریکہ اس سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔ Obama-Biden انتظامیہ نے عراق سے کوئی سبق
سیکھا تھا اور نہ ہی افغانستان سے کوئی سبق سیکھا تھا۔ لیبیا میں اسلامی انتہا
پسندوں کی حمایت میں قد ا فی حکومت کا خاتمہ کرنے کے نتائج سے بھی کچھ نہیں سیکھا تھا۔ نائب پریذیڈنٹ Joe Biden کو پریذیڈنٹ ا و با مہ سے خارجہ
امور میں 40سال کا تجربہ تھا لیکن انہوں نے بھی پریذیڈنٹ ا و با مہ کے ایک غلط فیصلے
کو درست سمجھا تھا۔ پریذیڈنٹ ا وبا مہ کے “Assad has to go” کہنے سے یا John
Bolton کے “President
Trump has to go” کہنے سے حکومتیں تبدیل نہیں ہوتی ہیں۔ حکومت تبدیل
کرنے کا فیصلہ صرف اور صرف عوام کرتے ہیں۔
Obama-Biden انتظامیہ کے شام کے بارے میں تمام
جائزے، تجزیے، فیصلے اور پالیسی امریکہ کی ناکامی بنے ہیں۔ اور آخری شاندار فتح
پریذیڈنٹ اسد، شام کی فوج اور عوام کی ہوئی ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل شاید اسے
اپنی کامیابی دیکھتے ہیں کہ شام کھنڈرات بن گیا ہے۔ اور اب اسے دوبارہ تعمیر ہونے
میں ایک صدی لگے گی۔ دنیا کے لیے یہ ایک انسانی المیہ ہے۔ ایک ملین بے گناہ انسان مر
گیے۔ ایک ملین سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گیے ہیں۔ خاندان اجڑ گیے ہیں۔ لوگوں کی
زندگیاں تہس نہس ہو گئی ہیں۔ امریکہ کی شام میں انسانیت سے یہ کیسی دشمنی ہے؟ شام
کے لوگوں نے امریکہ کے خلاف کبھی دہشت گردی نہیں کی تھی۔ شام میںSunni, Shia , Christian, سب ایک فیملی
کی طرح رہتے تھے۔ لیکن امریکہ کو یہ بھی پسند نہیں تھا۔ لبنا ن میں حزب اللہ
عیسائوں اور سنیوں کے ساتھ حکومت میں ہے۔ اور لبنا ن میں امن اور استحکام ہے۔ لیکن
امریکہ کو یہ بھی قبول نہیں ہے۔ امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب کو عراق میں ایران
کے Influence پر پریشانی ہے۔
اور دنیا کو امریکہ کی پالیسیوں پر اسرائیل کے Tremendous Influence پر تشویش ہے۔ امریکہ کی کسی بھی انتظامیہ
کی مڈل ایسٹ پالیسی اس کی نہیں ہے۔ یہ اسرائیل کی پالیسی ہوتی ہے۔ اور اس پر Made in America کا لیبل ہوتا ہے۔ امریکہ کو مڈل
ایسٹ میں ہر جگہ شکست ہونے کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی اپنی کوئی پالیسی نہیں ہے۔
شام کو کھنڈرات بنانے والے دہشت
گردوں کی ذلت آمیز شکست ہونے کے بعد اب امریکہ نے ان کے حوصلے بلند کرنے کے لیے نئی
بندشیں لگانے کا کہا ہے۔ تاکہ اسد حکومت کو اقوام متحدہ کی سرپرستی میں واپس مذاکرات
کے راستے پر آنے کے لیے مجبور کیا جاۓ۔
اور شام کی ایک دہائی طویل جنگ ختم کی جاۓ۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر Kelly Craft نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ "واشنگٹن
اسد حکومت کی فوجی کامیابی کو مستحکم ہونے
سے روکنے میں اقدامات کرے گا۔ ہمارا مقصد اسد حکومت کو ریونیو سے محروم کرنا اور
اسے جو مدد وسیع پیمانے پر ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے میں
ملتی ہے اسے روکنا ہے۔ وہ ایک سیاسی حل اور امن کے امکانات بے رحمی سے مدھم بنا
دیتے ہیں۔" اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نے شام کے بارے میں یہ ایسے کہا
ہے کہ جیسے امریکہ کا شام کی لڑائی میں کوئی رول نہیں ہے۔ آسمان سے لوگ آۓ تھے۔ جو
شام کو ایک دہائی طویل جنگ دے کر چلے گیے ہیں۔ اور امریکہ اب اسے ختم کرنے میں مدد
کر رہا ہے۔ شام کے انتہائی قریب ایک بالکل ایسی ہی صورت حال فلسطینیوں کے خلاف
اسرائیل نے 70سال سے پیدا کی ہوئی ہے۔ جہاں، امریکی سفیر Kelly Craft نے جن الفاظ میں شام کے بارے میں
ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بیان کی ہیں۔ اگر اسرائیل پر بندشیں لگانے میں
وہ صرف امریکی سفیر کے اس بیان کو استعمال کرے تاکہ اسرائیل کو فلسطینیوں سے
مذاکرات پر مجبور کیا جاۓ۔ امریکی سفیر اپنے ہی اس بیان کو دو سیکنڈ میں VETO کر دیں گی۔
سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے شام کے بعض اعلی حکام، کاروباری
لوگوں اور دولت مندوں پر بندشیں لگانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بھی ایک عجب مذاق ہے کہ
شکست خوردہ ملک شام کی میدان جنگ میں زبردست کامیابیوں کو بندشوں سے سبوتاژ کرنا
چاہتے ہیں۔ اور دہشت گردوں کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں۔ یہ وقت شام پر نئی بندشیں
لگانے کا نہیں ہے۔ انسانی اور اخلاقی ضمیر کا تقاضہ ہے کہ ذرا شام کی بے گناہ
انسانیت کے بارے میں غور کیا جاۓ کہ وہ ایک دہائی کی خونی جنگ میں کن کٹھن حالات
سے گزری ہے؟ کس طرح اس نے اپنے آپ کو زندہ رکھا ہے؟ انسانیت پر دنیا کو خوبصورت
لفظوں میں لیکچر دینا سب سے آسان ہے۔ لیکن انسانیت کے لیے کچھ نہ کرنا مفادات کی
سیاست ہے۔ اور شام میں انسانیت اس مفادات کی سیاست کی Victim ہے۔ شام جو انسانی تباہی کا قبرستان بنا ہوا ہے۔ لوگوں کے شہر اور
گھر کھنڈرات بنے ہوۓ ہیں۔ ان کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ معلوم نہیں وہ کس ضمیر سے
شام پر نئی بندشیں لگا رہے ہیں۔ صد ام حسین کتنا ہی ظالم اور ڈکٹیٹر تھا۔ لیکن اس
میں اتنی انسانیت ضرور تھی کہ اس نے اپنی فوج کو کویت کو شام کی طرح کھنڈرات بنانے
کی اجازت نہیں دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ اور مغربی ملکوں نے کویت کا اس
عرصہ میں تیل کی آمدنی کا جو نقصان ہوا تھا۔ صد ام حسین سے اسے ادا کرنے کا کہا
تھا۔ جو 100بلین ڈالر تھا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے پہلی خلیج جنگ پر ہونے والے
تمام اخراجات بھی صد ام حسین سے ادا کرنے کا کہا تھا۔ جو 90بلین ڈالر تھے۔ لیکن آج
وہ ہی ممالک جو ایک دہائی سے شام کی تباہی میں ملوث تھے۔ وہ سب ہاتھ جھاڑ کر بھاگ
لیے۔ شام کی معیشت کا اس عرصہ میں جو نقصان ہوا ہے۔ یہ انصاف ان کی Dictionary میں نہیں ہے۔ Obama-Biden انتظامیہ یہ ہی حالات
لیبیا کو دے کر گئی ہے۔
No comments:
Post a Comment