For the Sixteenth Years, the Pakistan Military and ISI Were Supporting the
Taliban In Afghanistan As American Media Had Claimed, And Now American Media
Have Revealed That the Russian Military Offered Bounties for the Taliban to
Kill Americans Soldiers
Why would Russia offer bounties
for the Taliban when America has lost the war and is leaving Afghanistan?
مجیب خان
The U.S.troops leaving Afghanistan |
The U.S.troops dismantle Bagram airbase, as forces prepare to leave |
Taliban's Cheif negotiator Mullah Abdul Ghani Baradar, (c, front) attend peace talks between senior Afghan politicians and Taliban negotiators in Moscow, May 29,2019 |
آٹھ سال Bush-Cheney اور 8سال Obama-Biden کے گزرنے کے بعد اب انکشاف یہ ہوا
ہے کہ روس طالبان کو Bounty دیتا تھا کہ وہ
امریکی فوجیوں پر حملے کریں اور انہیں ہلاک کریں۔ یہ انکشاف سابق دو انتظامیہ کے
16 سال میں نہیں ہوا تھا۔ کہ جب روس طالبان میں Bounty تقسیم کر رہا تھا۔ اور امریکی فوجی بڑی تعداد میں افغانستان میں
روزانہ مر رہے تھے۔ یہ انکشاف ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے 3سال گزرنے کے بعد اس وقت ہوا
ہے کہ جب افغانستان میں روزانہ امریکی فوجیوں کے مرنے میں زبردست کمی ہوئی تھی۔
اور طالبان کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ کے مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ افغان جنگ ختم کرنے
کا ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان نے عزم کیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں طالبان کے ساتھ ٹرمپ
انتظامیہ نے سمجھوتہ کیایہ تھا۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ
نے طالبان رہنما سے فون پر بات کی تھی۔ اور سمجھوتہ پر عملدرامد کے لیے کہا تھا۔
سیکرٹیری آف اسٹیٹ اور سابق CIA ڈائریکٹر
Mike Pompeo بھی طالبان سے
رابطے میں ہیں۔ لیکن روس کے Bounty دینے کا انکشاف
صرف امریکہ کے اخبارات نے ان ٹیلی جینس کے ذرائع سے کیا ہے۔ حالانکہ افغانستان میں
برطانیہ کی فوجیں بھی تھیں۔ برطانیہ کے تقریباً 6سو سے زیادہ فوجی افغانستان میں
مارے گیے تھے۔ برطانیہ کی ان ٹیلی جینس بھی افغانستان میں موجود تھی۔ لیکن برطانیہ
نے امریکہ کے اخبارات میں اس انکشاف پر کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ یہ سمجھ میں نہیں آ
رہا کے اس وقت کہ جب امریکی فوجیں واپس گھروں کو جا رہی ہیں۔ افغانستان میں امریکی
ملٹری بیس Dismantle کی جا رہی ہیں۔
طالبان کو Russian Bounty کی سنسنی خیز
خبر کا مقصد کیا تھ
حیرت کی بات یہ ہے کہ روس کا طالبان
کو Bounty دینے کا انکشاف
امریکہ کے ان بڑے اخبارات میں ہوا ہے۔ جو 16سال سے Bush اور Obama انتظامیہ میں
ان ٹیلی جینس کے حوالے سے یہ خبریں شائع کرتے تھے کہ پاکستان آرمی اور ISI طالبان کی پشت پنا ہی
کر رہے تھے۔ پاکستان میں طالبان کے تربیتی کیمپ ہونے کے دعوی کیے جاتے تھے۔ اور
حقانی نیٹ ورک کو جو شمالی سرحدی علاقہ میں تھا۔ اسے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو
فوجوں پر حملوں کا ذمہ دار کہا جاتا تھا۔ متعدد امریکی فوجی افغانستان میں حقانی
نیٹ ورک کے حملوں میں مارے گیے تھے۔ اور دنیا کو یہ بتایا جاتا تھا۔ Bush-Cheney کے Second half میں پاکستان کے خلاف یہ تحریک
شروع ہو گئی تھی کہ آرمی اور ISI میں بعض طالبان
کو سپورٹ کر رہے تھے۔ افغانستان میں پریذیڈنٹ کر ز ئی اور بھارتی حکومت دونوں
امریکہ کے ان دعووں کی تائید میں بیان دیتے تھے۔ پاکستان پر دباؤ ڈالا جاتا کہ وہ طالبان کی
حمایت بند کرے۔ شمالی سرحدی علاقوں سے
طالبان کے کیمپ ختم کرے۔ Bush-Cheneyاپنے 8 سال
مکمل کر کے ایک ناکام افغان جنگ Obama-Biden انتظامیہ کے حوالے کر کے چلی گئی۔ اب 8 سال تک Obama-Biden انتظامیہ بھی افغانستان میں
طالبان کے حملوں کا پاکستان کو الزام دیتی رہی تھی۔ اور پاکستان سے
طالبان کی دہشت گردی کے خلاف ‘Do
more’ ہوتا رہا۔ حالانکہ پاکستان خود طالبان کے انتہائی خوفناک حملوں کی
زد میں تھا۔ ان کی دہشت گردی میں 50-60ہزار پاکستانی شہری جن میں ایک خاصی تعداد
فوجیوں کی بھی تھی مارے گیے تھے۔ امریکہ کے Afghan adventurism میں مرنے والوں میں
افغانوں کے بعد پاکستانی دوسرے نمبر پر تھے۔
دو انتظامیہ کے 16 سال کے دوران کبھی
یہ نہیں کہا گیا تھا کہ یہ پاکستان نہیں روس تھا جو طالبان کو افغانستان میں
امریکہ اور اتحادی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے لیے Bounty دیتا تھا۔ 19سال میں امریکہ کے بہت سے جنرل اور کمانڈر آۓ اور چلے گیے لیکن ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا
تھا کہ روس طالبان کو امریکی فوجی ہلاک کرنے پر Bounty دیتا تھا۔ 9/11 کے بعد امریکہ
کی دہشت گردی کے خلاف جنگ افغانستان سے شروع ہوئی تھی۔ امریکہ کی بڑی تعداد میں خفیہ
ایجنسیاں افغانستان میں دہشت گردوں کا تعاقب کرنے میں مصروف تھیں۔ 5ہزار سے زیادہ
دہشت گردوں کو افغانستان سے پکڑا تھا۔ اور انہیں گو تا نو مو بے لایا گیا تھا۔
جہاں ان سے پوچھ گچھ میں انتہائی ظالمانہ
طریقے اختیار کیے گیے تھے۔ لیکن ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا تھا کہ روس نے انہیں
Bounty دی تھی۔ اور وہ امریکی فوجی ہلاک
کرتے تھے۔ ان میں طالبان بھی تھے۔ جنہیں ٹرمپ انتظامیہ نے رہا کیا تھا۔ اور پھر ان
کے ساتھ افغان جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات کیے تھے۔
سوال یہ ہے کہ روس طالبان کو ہزاروں
ڈالرBounty امریکہ اور اتحادی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے لیے
کیوں دے گا؟ جبکہ امریکہ کی افغانستان میں شکست بہت واضح نظر آ رہی تھی۔ طالبان
امریکہ کے تربیت یافتہ تھے۔ اور ان کا خاتمہ کرنے کی جنگ ایک احمقانہ سوچ تھی۔ نہ
صرف یہ بلکہ طالبان کے خلاف جنگ شروع کرنے سے پہلے پینٹ گان میں سابق سوویت جنرلوں
سے افغانستان میں ان کے تجربہ پر Briefing لی تھی کہ ان سے کیا غلطیاں
ہوئی تھیں۔ جو ان کی شکست کا سبب بنی تھیں۔ پاکستان نے بش انتظامیہ کو 10ملین ڈالر
کا مشورہ دیا تھا کہ طالبان سے مذاکرات واحد افغان حل ہے۔ لیکن Bush-Cheney انتظامیہ نے 10ملین
ڈالر کر پٹ افغان وار لارڈ ز کو Bounty طالبان کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے
دئیے تھے۔ وار لارڈ ز نے ان ڈالروں سے کچھ طالبان خرید لیے تھے۔ کچھ طالبان مار دئیے
تھے۔ کچھ طالبان کو اپنے مخالف وار لارڈ کا خاتمہ کرنے کے لیے رکھا۔ کچھ طالبان سے
منشیات کا کاروبار کرانے کے لیے رکھا تھا۔ دوسری طرف ازبک اور تا جک وار لارڈ ز کو
پشتون طالبان کے خلاف استعمال کیا تھا۔ لیکن ازبک اور تا جک وار لارڈ طالبان سے
امریکہ کے لیے نہیں لڑے تھے۔ بلکہ انہوں نے طالبان سے اپنا انتقام لیا تھا۔ جنہوں
نے کابل میں حکومت میں آنے کے بعد ہزاروں ازبک اور تا جک مارے تھے۔ احمد شاہ مسعود
کو قتل کرایا تھا۔ کر ز ئی پشتون تھے۔ لیکن ان کی حکومت میں غلبہ ازبک اور تا جک
کا تھا۔ جو وزارت داخلہ، پولیس، فوج اور دوسرے سیکورٹی اداروں میں بھرے ہوۓ تھے۔ پاکستان
کے ساتھ ازبک اور تا جک کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ کیونکہ پاکستان نے طالبان کو سپورٹ کیا تھا۔ ازبک
اور تا جک پاکستان کے خلاف بھارت کے اتحادی ہو گیے تھے۔ Bush-Cheney انتظامیہ نے کئی Blunders کیے تھے لیکن جو Blunder افغانستان میں
امریکہ کی شکست بنا ہے۔ وہ افغانستان میں بھارت کا رول تھا۔ جو Bush-Cheney انتظامیہ نے بھارت کو دیا تھا۔
بھارت نے ازبک اور تا جک کے ساتھ اتحاد بنا لیا تھا۔ اور انہیں پاکستان کے خلاف
استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس صورت حال میں پاکستان کے لیے حقانی نیٹ ورک اور
طالبان کی سپورٹ اور زیادہ اہم ہو گئی تھی۔ بش کی قومی سلامتی ٹیم اس حساس نوعیت
کو سمجھ نہیں سکی تھی۔ افغان جنگ یہ Reginal Politics میں لے آۓ تھے۔ Obama-Biden انتظامیہ نے بھی افغان جنگ کے اس Status quo میں امریکہ کے لیے کامیابی دیکھی
تھی۔ لہذا اس میں تبدیلی کی بجاۓ اسے جاری رکھنے کو اہمیت دی تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ
نے سابقہ دونوں انتظامیہ کی Failed افغان پالیسی
تبدیل کر دی تھی۔ بھارت کی افغان سیاست میں مداخلت مسئلہ تسلیم کیا تھا۔ پاکستان
کی افغانستان میں امن اور استحکام میں مخلص سنجیدگی کو امریکہ کی ضرورت سمجھا تھا۔
اور طالبان سے مذاکرات کی اہمیت قبول کر لی تھی۔ یہ پالیسی Bush-Cheney انتظامیہ کی ہونا چاہیے تھی۔ یہ
پالیسی Obama-Biden انتظامیہ کو
اختیار کرنا چاہیے تھی۔ لیکن دونوں انتظامیہ عوام سے Dishonest تھیں۔ دنیا میں جنگیں فروغ دے رہی
تھیں۔ اور عوام سے امن اور ان کی سلامتی کی باتیں کرتی تھیں۔ گزشتہ دسمبر میں افغانستان
کے بارے میں Inspector General
Report میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ حکومت کے اعلی حکام نے کس طرح
امریکی عوام کو افغانستان کے بارے میں گمراہ کیا تھا۔ کس طرح ان سے حقائق چھپاۓ
تھے۔ اور اعلی حکام کس طرح جھوٹ بولتے تھے۔
“We were devoid of a fundamental understanding of Afghanistan –
we didn’t know what we were doing,” Douglas Lute, a three-star Army general who
served as the White House’s Afghan war czar during the Bush and Obama
administrations, told government interviewers in 2015. He added “What are we
trying to do here? We didn’t have the foggiest notion of what we were undertaking.”
“If the American people knew
the magnitude of this Dysfunction… 2,400 lives lost,” Lute added, blaming the
deaths of U.S. military personnel on bureaucratic breakdowns among Congress,
the Pentagon, and the State Department. “Who will say this was in vain?”
Inspector General Report
No comments:
Post a Comment