Tuesday, August 25, 2020

Are Arab Rulers Hiring Israel As A Security Insurance Policy and Firing America From Its Worst Job in The Middle East?


  Are Arab Rulers Hiring Israel As A Security Insurance Policy and Firing America From Its Worst Job in The Middle East?

Will Israel make Dubai, Hong Kong and UAE make Israel Singapore?

مجیب خان
Prime Minister Benjamin Netanyahu and UAE Crown Prince Mohammed Bin Zayed

Gulf Cooperation Council, Bahrain, Kuwait, Oman, Qatar, Saudi Arabia, and the United Arab Emirates



  اسرائیل اور متحدہ عرب امارت انتہائی مشکل حالات میں ہیں۔ اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی اقتصادی مشکلات کا حل سفارتی تعلقات بحال کرنے میں دیکھا ہے۔ متحدہ عرب امارت GCC کا رکن ہے۔ یمن کے ساتھ جنگ میں یہ GCC ملکوں کے اتحاد میں شامل ہے۔ لیکن اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے میں متحدہ عرب امارت نے جیسے GCC ملکوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ اور GCC ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے ایک مشترکہ فیصلہ کے بغیر متحدہ عرب امارت نے  اپنا  فیصلہ کیا ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن زید نے عرب لیگ کی اس قرارداد کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے جس پر انہوں نے 2002 میں دستخط کیے تھے۔ اور جس میں عرب سربراہوں نے یہ کہا تھا کہ ' عرب اور تمام اسلامی ممالک ایک ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اسرائیل کو پہلے 1967 کی سرحدوں پر واپس جانا ہو گا۔ عرب لیگ سربراہ کانفرنس کا یہ اعلامیہ سعودی عرب کے مرحوم شاہ عبداللہ نے عالمی پریس کے سامنے بیان کیا تھا۔ لیکن عرب سربراہوں کا المیہ یہ ہے کہ جن کپڑوں میں وہ یہ فیصلے کانفرنسوں میں کرتے ہیں۔ وہ کپڑے کانفرنس ہال میں اتار کر اپنے محلوں میں واپس آ جاتے ہیں۔ متحدہ عرب امارت کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید نے اپنے عرب لیگ کے کپڑے اتار دئیے ہیں اور ‏Made in Benjamin Netanyahu کے کپڑے پہن لیے ہیں۔ غیر عرب اسلامی حکومتوں کو ایسے عرب سربراہوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ جن کے فیصلوں پر بھرو سہ ان کے لیے تباہی بن سکتا ہے۔ ان کے صرف اس Behavior کی وجہ سے اسرائیل 50برس سے ان کے علاقوں پر قابض ہے۔ اور اب بادشاہوں، ولی عہد اور شہزادوں کی گردنیں پکڑ کر ان سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ اس سے بڑی ذلت انہوں نے دنیا ۓ اسلام کو نہیں دی ہو گی۔
  مصر نے 1979 میں اور ار دن نے 1994 میں اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ اس وقت ان کے فیصلوں کو تاریخی فیصلے کہا گیا تھا۔ لیکن یہ اسرائیل کے لیے تاریخی فیصلے ثابت ہوۓ تھے۔ اور عربوں کے لیے یہ تاریکی کے فیصلے ثابت ہوۓ تھے۔ اسرائیل نے عربوں کے علاقوں پر قبضہ Permanent کر کے اسرائیلی عوام کو ایک نئی تاریخ دی تھی۔ لیکن مصر اور ار دن کے عوام کو اسرائیل تسلیم کرنے سے کیا ملا تھا؟ 40 اور 26 سال میں ان کی زندگیوں میں امن کی کون سی بہاریں آ گئی تھیں؟ وہ 1979 اور 1994 میں جہاں تھے آج بھی وہ وہیں ہیں بلکہ آج زیادہ بدتر حالات میں ہیں۔ اسرائیل نے مصری عوام کو اپنی جمہوریت نہیں دی تھی بلکہ ان کی جدو جہد سے جو جمہوریت مصر میں آئی تھی۔ اسرائیل نے اس کے خلاف سازش کر کے سبوتاژ کر دیا تھا۔ مصر کے عوام آزادی اظہار سے ابھی تک محروم ہیں۔ Media پر تالے پڑے ہیں۔ عوام ابھی تک غربت میں ہیں۔ فوجی ڈکٹیٹر ان پر مسلط ہے۔ امریکہ نے مصر سے امن معاہدے کے صرف اس حصہ پر عملدرامد کرایا تھا جو اسرائیل کی سلامتی کے مفاد میں تھا۔ اور معاہدے کا بقیہ حصہ Archive میں جمع کر دیا تھا۔
  مصر اور ار دن کے ساتھ امن معاہدوں کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا Behavior  بدل گیا تھا۔ اور یہ Apartheid ہو گیا تھا۔ جو فلسطینی اسرائیل میں رہتے ہیں اور اسرائیل کے شہری ہیں۔ ان کے ساتھ بھی اسرائیل کا رویہ Apartheid تھا۔ اسرائیل کے گزشتہ انتخاب میں اسرائیلی فلسطینیوں نے پارلیمنٹ میں 15نشستیں حاصل کی تھیں۔ لیکن وزیر اعظم نتن یا ہو نے ان کا Knesset میں خیر مقدم کرنے کے بجاۓ یہ کہا کہ ان فلسطینیوں کے ہاتھوں پر اسرائیلیوں کا خون ہے۔ اور ان کے ساتھ حکومت بنانا قبول نہیں ہے۔ Blue and white پارٹی کے Benny Gantz کو حکومت بنانے کے لیے کچھ نشستوں کی ضرورت تھی اور وہ فلسطینیوں کی 15 نشستیں شامل کر کے حکومت بنا سکتے تھے۔ لیکن نتن یا ہو کو یہ قبول نہیں تھا۔ لیکن متحدہ عرب امارت کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید اس اسرائیلی حکومت سے سمجھوتہ کر رہے ہیں جو عربوں کے خون میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس حکومت نے اپنے وزیر اعظم کا قتل کرایا تھا۔ جس نے فلسطینیوں سے امن سمجھوتہ کیا تھا۔ فلسطینیوں کے حقوق اور آزادی دینے کی بات کی تھی۔ وزیر اعظم نتن یا ہو کی پارٹی نے اس سمجھوتہ کو ختم کر کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں امریکہ اور یورپ سے آنے والے نئے یہودیوں کی بستیاں تعمیر کر دی ہیں۔ اور فلسطینیوں پر اب  یہ دباؤ ڈالا جا رہا کہ انہیں جو دیا جا رہا ہے۔ اس پر سمجھوتہ کر لیں۔ عرب حکمران ایک ایک کر کے فلسطینیوں کا ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں۔ اور اسرائیل کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ غیر عرب اسلامی ملک فلسطینیوں کے پیچھے کھڑے ہیں۔ اور جب تک فلسطینیوں کے ساتھ انصاف نہیں ہو گا۔ وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے Period۔
  متحدہ عرب امارت اس وقت انتہائی مشکل اقتصادی حالات میں ہے۔ دوسری طرف اسرائیل بھی اقتصادی بحران میں ہے۔ Coronavirus نے سب کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ اسرائیل کی معیشت کو پہلے ہی BDS تحریک کا سامنا تھا۔ جبکہCoronavirus  اور Lockdown کی وجہ سے ہزاروں غیر ملکی اپنے کاروبار ختم کر کے اور اپنی املاک فروخت کر کے متحدہ عرب امارت سے واپس اپنے ملکوں میں جا رہے تھے۔ ان میں بڑی تعداد برطانیہ، آسٹریلیا، اور دوسرے یورپی اور ایشیائی کی تھی۔ شاپنگ مال بند ہو گئی تھیں۔ ہوٹلوں میں تالے لگ گیے تھے۔ بلند ترین عمارتیں خالی ہوتی جا رہی تھیں۔ سیاحت انڈسٹری کا نقصان لاکھوں ڈالروں میں تھا۔ امارت ائیر لائن کی تمام عالمی پروازیں بند ہو گئی تھیں۔ ائیر لائن کا خسارہ بڑھتا جا رہا تھا۔ تیل کی قیمتیں بری طرح گر گئی تھیں۔ خلیج کے دوسرے ملک بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کر رہے تھے۔ یہ دولت مند ملک پہلی مرتبہ اتنی خطرناک صورت حال کا سامنا کر رہے تھے۔
 وزیر اعظم نتن یا ہو نے کہا تھا کہ 'ہم ایران کی معیشت کا گلہ گھونٹ دیں گے۔' لیکن Coronavirus اسرائیل کی معاشی شہ ر گ پر پہنچ گیا تھا۔ اسرائیل کے Behalf پر ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر واقعی گلہ گھونٹنے والی بندشیں لگائی تھیں۔ لیکن Coronavirus سے اسرائیل کی معیشت  بند ہونے سے اپریل سے جون کی سہ ماہی میں معیشت 28.7% گری ہے۔ اسرائیلی معیشت کا اتنا بڑا نقصان عربوں سے جنگ سے نہیں ہوا ہو گا۔ Lockdown سے اسرائیل کی تجارت اور پیداوار کا زبردست نقصان ہوا ہے۔ اسرائیل کی GDP 7.8% گر گئی ہے۔ جبکہ اسرائیل کی برآمدات 29.2% گر گئی ہیں۔ اسرائیلی معیشت کمزور ہونے سے ایک طرف مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی فوجی کاروائیوں کا زور ٹوٹا ہے۔ اور دوسری طرف خلیج کی ریاستوں اور عرب ملکوں سے اسرائیل تعلقات قائم کرنے پر زور دے رہا ہے۔ اسرائیل کی پالیسیوں میں سیاسی تبدیلیوں کا براہ راست اسرائیلی معیشت سے گہرا تعلق ہے۔ اسرائیل مڈل ایسٹ میں بے شمار اقتصادی، تجارتی اور سیاسی موقع دیکھ رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف عربوں کے سامنے بھی اسرائیل سے اپنے تمام تنازعہ حل کرانے کے سنہری موقع ہیں۔ عرب حکمران محاذ جنگ میں ہار گیے تھے۔ اور اب سیاست اور سفارت کے محاذ پر کمزور اور خوفزدہ نظر آ رہے۔ جسے وزیر اعظم نتن یا ہو ایک سنہری موقع دیکھ رہے ہیں۔
  امریکہ اور اسرائیل کی مڈل ایسٹ حکمت عملی خاصی کامیاب ہو رہی ہے۔ انہوں نے پہلے مڈل ایسٹ کو شیعہ سنی لڑائی میں تقسیم کر دیا تھا۔ سنی بلاک کا لیڈر سعودی عرب کو بنایا تھا۔ اور ایران کو شیعہ بلاک کا لیڈر ہونے کا پراپگنڈہ شروع کر دیا تھا۔ حالانکہ خلیج کی ہر ریاست میں بہت بڑی تعداد میں شیعہ آبادی ہے۔ جو عرب ہیں۔ متحدہ عرب امارت میں بڑی تعداد میں ایرانی ہیں۔ جو انقلاب ایران کے بعد سے یہاں رہتے ہیں۔ اور ان کے یہاں کاروبار ہیں۔ اسلامی دنیا امریکہ اور اسرائیل کی اس گھٹیا سوچ کو 21صدی  میں Nonsense سمجھتی ہے۔ پھر ترکی کے خلاف یہ پھیلایا گیا کہ ترکوں نے سلطنت عثمانیہ میں عربوں کا قتل عام کیا تھا۔ جرمنی میں نازی جر منوں کے دور میں یہودیوں کا Holocaust ہوا تھا۔ اس لیے یورپ میں جرمنی کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔ 21ویں صدی کو 18ویں صدی کے واقعات سے نئی صدی نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ عرب حکمران آخر اپنی عقل کب استعمال کریں گے۔ عرب حکم رانوں کے بہت سے مسائل صرف اپنی عقل استعمال کرنے سے حل ہو سکتے تھے۔
  اسرائیل نے ار دن سے صرف Government to Government Relations ر کھے ہیں۔ اور People to People Relations ابھی بحال نہیں کیے ہیں کیونکہ ار دن میں بہت بڑی تعداد فلسطینیوں کی ہے۔ اور اسرائیل یہ نہیں چاہتا ہے کہ ان Jordanian Palestinians کا اسرائیل میں ٹریفک بڑھ جاۓ گا۔ خلیج میں بھی اسرائیل کو اس صورت حال کا سامنا ہو گا۔ یہاں بھی بڑی تعداد میں فلسطینی مہاجر نصف صدی سے ہیں۔ جن کے یہاں کاروبار ہیں۔ اور جب اسرائیل سے تعلقات بحال ہوں گے۔ تو یہ اسرائیلی مقبوضہ فلسطین سے تجارت فروغ دیں گے۔ اسرائیلی جب اپنی کمپنیوں کے ساتھ یہاں رہنے آئیں گے تو فلسطینی بھی اپنا کاروبار لے کر اسرائیل میں رہنے جائیں گے۔ اسی طرح اسلامی انقلاب کے بعد جو ایرانی یہودی اسرائیل چلے گیے تھے۔ اور اسرائیل میں ان کے کاروبار ہیں۔ وہ بھی اپنے کاروبار کے ساتھ خلیج میں آ کر آباد ہو سکتے ہیں۔ وہ اپنے آبائی ایران سے قریب ہوں گے۔ اور ایران کے ساتھ تجارت بھی فروغ دیں گے۔ بلکہ ایران کے راستے وسط ایشیا تک اپنی تجارت پھیلا سکتے ہیں۔ خلیجی ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات مصر اور ار دن کے ساتھ تعلقات سے بہت مختلف ہوں گے۔ یہ One way نہیں ہوں گے۔ بلکہ Two Way ہوں گے۔  لیکن سوال پہلے مڈل ایسٹ کے سیاسی تنازعہ حل کیے جائیں۔ صرف اسی صورت میں معاشی اور اقتصادی تعلقات فروغ دئیے جا سکتے ہیں۔                          

No comments:

Post a Comment