Thursday, August 20, 2020

Election 2020: Obama’s Republicans and Bush’s Democrats are United Behind Joe Biden, Last Hopes to Save the System, Failed Wars and $26Trillion in Debt Now Forced to Change the System


   Election 2020: Obama’s Republicans and Bush’s Democrats are United Behind Joe Biden, Last Hopes to Save the System, Failed Wars and $26Trillion in Debt Now Forced to Change the System

Coronavirus is a temporary issue, while gun violence is a permanent issue, how many people have been killed during the Bush-Obama administrations, why don’t they solve this chronic problem.
President Trump makes a mistake transforming America’s ‘war-based economy’ with a trade war with China.

مجیب خان

Former President Bill Clinton addressing the Democratic Party convention, 2020  

Former President Barack Obama makes a case for Joe Biden to elect President in addressing the Democratic Party Convention, 2020  

    2008 میں ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوارJohn McCain نے 44سالہ Sarah Palin کو نائب صدر کے لیے نامزد کیا تھا۔ John McCain تقریباً 72 برس کے تھے۔ اس وقت یہ کہا جا رہا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہو جاتے ہیں اور انہیں کچھ ہو جاتا ہے تو پھر Sarah Palin پریذیڈنٹ ہوں گی۔ John McCain صدارتی انتخاب ہار گیے تھے۔ اور کچھ عرصہ بعد وہ شدید علیل ہو گیے تھے۔ اور اب 12سال بعد ڈیموکریٹک  پارٹی کے 77 سالہ صدارتی امیدوار Joe Biden نے سینیٹر Kamala Harris کو نائب صدر کے لیے نامزد کیا ہے۔ سینیٹر Kamala Harris 55برس کی ہیں۔ اور Joe Biden اگر صدر منتخب ہو جاتے ہیں تو آئندہ جنوری میں وہ 78 کی عمر میں امریکہ کے 46پریذیڈنٹ کا حلف لیں گے۔ سابق صدر کارٹر نے کہا ہے کہ Joe Biden کو اس عمر میں صدارتی امیدوار نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن سابق ری پبلیکن نائب صدر Dick Cheney کا کہنا تھا کہ ڈیموکریٹک پارٹی میں صرف Joe Biden پریذیڈنٹ Trump کو شکست دے سکتے ہیں۔ یہ سیاسی المیہ تھا کہ امریکہ کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی میں کوئی بھی پریذیڈنٹ ٹرمپ کو انتخابات میں ہرا نہیں سکتا تھا۔ اور صرف Joe Biden ہیں جو پریذیڈنٹ Trump کو ہرا سکتے ہیں۔ لیکن پھر ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کے بعد نائب صدر کے عہدہ کے لیے امیدوار تلاش کرنے میں Joe Biden کو تین ماہ لگے تھے۔ اور اس عہدہ پر وہ صرف Woman چاہتے تھے۔ اور ان کی پہلی ترجیح Black Woman تھی۔ لیکن یہ نظر آ رہا تھا کہ کوئی موجودہ حالات میں آگے آنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ صدارتی انتخاب میں 80دن رہے گیے تھے۔ اور نائب صدر کے لیے تلاش جاری تھی۔ بلا آخر سینیٹر Kamala Harris نے نائب صدر کے عہدہ کے لیے امید وار بننے کے لیے تیار ہو گئی تھیں۔ کیلیفورنیا سے سینیٹر منتخب ہوئی تھیں۔ اس سے قبل کیلیفورنیا کی اٹرنی جنرل تھیں۔ اور اگر Joe Biden پریذیڈنٹ منتخب ہو گیے تو Kamala Harris کے 4سال میں کسی وقت پریذیڈنٹ بننے کے قوی امکان ہیں۔ Kamala Harris کی ماں بھارتی نژاد امریکی ہیں۔ ان کے والد Jamaican ہیں۔ ان کے شوہر Jewish ہیں۔ بھارت میں ان کے رشتے دار بہت خوش تھے کہ Kamala کو نائب صدر کے لیے نامزد کیا ہے۔ لیکن وزیر اعظم مودی نے گزشتہ سال پریذیڈنٹ ٹرمپ کے ساتھ دو بڑی ریلی ایک امریکہ اور دوسری گجرات میں 50ہزار بھارتیوں کے اجتماع سے پریذیڈنٹ ٹرمپ کو ‘For more year’ دینے کے نعرے لگاۓ تھے۔ اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم کی حیثیت سے نرند ر مودی نے پریذیڈنٹ ٹرمپ کو ‘For more year’ کے لیے Endorse کیا تھا۔
  امریکہ کی تاریخ میں Hillary Clinton پہلی Woman صدارتی امیدوار تھیں۔ جو ڈیموکریٹ تھیں۔ اور 2016 میں ان کے پریذیڈنٹ بننے میں کسی کو شبہ نہیں تھا۔ وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے بہت قریب پہنچ گئی تھیں۔ ایک نئی تاریخ بننے کا پہیہ جیسے پراسرار ہاتھوں نے پیچھے موڑ دیا تھا۔ ان کے خیال میں امریکہ Woman President لیے ابھی تیار نہیں تھا۔ ہلری کلنٹن کے بارے میں ووٹر ز میں یہ تاثر پیدا کر دیا تھا کہ اگر وہ پریذیڈنٹ بن گئی تو وہ پریذیڈنٹ ا وبا مہ کی پالیسیاں جاری رکھیں گی۔ ہلری کلنٹن کی الیکشن ٹیم کو اس تاثر کا فوری Counter کرنا چاہیے تھا۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ ہلری کلنٹن پریذیڈنٹ ا و با مہ کی پالیسیاں جاری رکھتی۔ وہ اپنے Husband کی پالیسیاں بھی واپس لا سکتی تھیں۔ پریذیڈنٹ بل کلنٹن کی پالیسیوں نے امریکہ کو اقتصادی خوشحالی دی تھی۔ حالانکہ کے اس وقت Globalization کا آغاز ہو رہا تھا۔ اور پریذیڈنٹ بل کلنٹن ان تبدیلیوں میں امریکہ کی معیشت کو Adjust کرتے رہے۔ امریکہ سے جو Jobs چلے گیے تھے۔ ان کی جگہ Jobs کے نئے موقع پیدا کیے تھے۔ امریکہ کی معیشت کو ‘war based economy’ بننے سے دور رکھا تھا۔ بش41]]  نے پہلی عراق جنگ کو امریکہ کی ‘war based economy’ بنانے میں استعمال کیا تھا۔ پھر Bush-Cheney انتظامیہ میں جنگوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ افغانستان میں جنگ کو قومی سلامتی امور کی ٹیم نے طالبان کا مکمل خاتمہ ہونے تک جاری رکھنے کی بات کی تھی۔ اور جب بھی افغان جنگ ختم کرنے کی بات کی جاتی تھی۔ دونوں پارٹیوں کی طرف سے کانگریس میں اس کی مخالفت ہوتی  تھی۔ 19سال سے جاری افغان جنگ کو بڑے فخر سے دنیا کو بتایا جاتا تھا کہ امریکہ کی تاریخ کی سب سے طویل جنگ ہے۔ حالانکہ افغانستان پہلے ہی 30 سال سے جنگ میں تباہ ہو چکا تھا۔ اور انتہائی غریب ملک تھا۔ اس جنگ کو 19 دن میں ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم نہیں کی جا رہی تھی اسے پھیلایا جا رہا تھا۔ نائب صدر Dick Cheney نے کہا تھا کہ یہ جنگ 50سال تک جاری رہے گی۔ یعنی یہ Cold War کا Substitute تھی۔ 13 سال عراق جنگ، 8سال لیبیا جنگ، 8سال شام جنگ، 7سال یمن جنگ، اور یہ جنگیں امریکہ کی ‘war based economy’  فروغ دے رہی تھی۔ مڈل ایسٹ  میں سب سے زیادہ ہتھیار فروخت کیے جا رہے تھے۔ جہاں اسلامی انتہا پسندی کی گہری جڑیں تھیں۔ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان اور جرمنی پر ہتھیاروں کی پابندی لگا دی تھی۔ لیکن امریکہ پر 9/11 کو 19 عربوں نے حملہ کیا تھا۔ اور اس حملے کے بعد سے امریکہ نے عربوں کو دھڑا دھڑ ہتھیار فروخت کرنا شروع کر دئیے تھے۔ امریکہ کی معیشت Boom کر رہی تھی۔ دونوں پارٹیاں ہر4سال بعد جب الیکشن کا موسم آتا ہے۔ عوام کی بات کرتی ہیں۔ الیکشن کا موسم گزر جاتا ہے۔ پھر National Security Establishment کا انتظامیہ پر کنٹرول ہوتا ہے۔
  دونوں پارٹیوں کے 16 سال اقتدار میں پالیسیوں سے لوگ بہت Fed up ہو گیے تھے۔ اور وہ ایک Outsider کو اقتدار میں لاۓ تھے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ Outsider ہیں۔ ری پبلیکن Insider ہیں۔ لیکن عوام پریذیڈنٹ ٹرمپ کے پیچھے کھڑے ہیں۔ اور پریذیڈنٹ ٹرمپ انتہائی مشکل حالات میں امریکہ کی کرپٹ سیاست Shake up کر رہے ہیں۔ عالمی امور کو Shake up کیا ہے۔ اور جب System Shake up ہوتا ہے۔ تو بلاشبہ System جن کے مفاد میں ہوتا ہے۔ انہیں سب سے زیادہ تکلیف پہنچتی ہے۔ اور System کو بچانے کے لیے وہ متحد ہونے لگتے ہیں۔ اور ہم اب کیا دیکھ  رہے ہیں، پریذیڈنٹ ا و با مہ کے ری یپبلیکن اور پریذیڈنٹ بش کے ڈیموکریٹ  اب Joe Biden کے پیچھے متحد ہو گیے ہیں۔ دونوں سابق انتظامیہ میں National Security Establishment کے لوگ Biden administration میں شامل ہونے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔
 Coronavirus ایک Temporary issue ہے۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ نے اسے Handle کرنے میں دیر کی تھی۔ تو ریاستوں کی انتظامیہ نے بھی Blunders کیے ہیں۔ ریاستوں کی انتظامیہ Virus  کا ریاست میں داخل ہونے کا انتظار کرتی رہی۔ انہیں Virus ریاست میں پہنچنے سے بہت پہلے اپنے تمام بڑے شہروں کا مکمل Lockdown کرنا چاہیے تھا۔ دور دراز میں 10ہزار، 5 ہزار اور 3ہزکی آبادی کے شہروں میں معاشی سرگرمیاں جاری رہتی۔ ہر ریاست کی انتظامیہ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی ریاست میں Businesses کے بھاری نقصانات ہونے کو محدود رکھتے۔ اور جلد از جلد معاشی سرگرمیاں بحال کرنے کو اہمیت دیتے۔ 50 ریاستوں میں Coronavirus پھیلنے کا  ذمہ دار صرف POTUS کو ٹھہرانا Fair نہیں ہے۔              

No comments:

Post a Comment