Tuesday, August 11, 2020

Lebanon: Another Arab State Collapses; How Israel, America And Saudi Arabia Has Played A Role to Destabilize Lebanon

 

  Lebanon: Another Arab State Collapses; How Israel, America And Saudi Arabia Has Played A Role to Destabilize Lebanon

 

Under President Bush, Iraq was destroyed by preemptive war, Libya was destroyed under President Obama by NATO preemptive attacks and Syria was destroyed by foreign Islamic extremists supported by America, Israel, Saudi Arabia, and the Gulf States. Under President Trump, Lebanon’s collapse is just by declaring that Hezbollah is a terrorist organization, and in Beirut, the process of the political destabilizing has started.
مجیب خان   

 






 

  گزشتہ 20سالوں سے ہر امریکی انتظامیہ میں مڈل ایسٹ میں ریاستیں گرتی جا رہی ہیں۔ اور اب لبنا ن بھی تباہ ہو گیا ہے۔ لبنا ن کا معاشی، سیاسی اور انتظامی شیرازہ بکھر گیا ہے۔ 70s کی خانہ جنگی کے بعد کی نسل کو لبنا ن کے موجودہ حالات میں کوئی مستقبل نظر نہیں آ رہا ہے۔ ایک طویل اور انتہائی خونی خانہ جنگی کے بعد انتھک کوششوں سے لبنا ن کو دوبارہ ایک ملک بنایا گیا تھا۔ بیرو ت کی خوبصورتی بحال ہو گئی تھی۔ لیکن کئی سال کے استحکام کے بعد بیرونی عوامل لبنا ن کو پھر انتشار اور عدم استحکام میں لے آۓ ہیں۔ لیکن بڑی تباہی لبنا ن کے اندر سے آئی ہے۔ بیرو ت کی بندر گاہ کے قریب Warehouse میں محفوظ  2700ٹن Ammonium Nitrate میں دھماکوں نے بیرو ت کا نقشہ بدل دیا ہے۔ یہ دھماکے ایسے تھے کہ جیسے ہیرو شما اور ناگا ساکی پر ایٹم گرنے سے تباہی ہوئی تھی۔ اتفاق سے اس روز جاپان میں ہیرو شما اور ناگا ساکی پر امریکی طیاروں سے ایٹم بم گرانے کی 75ویں یاد گار منائی جا رہی تھی۔ لبنا ن بھی اب شام، لیبیا اور یمن کے شہروں میں شامل ہو گیا ہے۔ جہاں ہر طرف کھنڈرات ہیں یا بربادی کا ملبہ پڑا ہے۔ Ammonium Nitrate کے دھماکہ اتنے زور دار تھے کہ چند لمحہ میں بیرو ت کے 300,000 لوگ بے گھر ہو گیے تھے۔ ان کے گھروں کا تمام سامان ملبہ میں تھا اور وہ سڑکوں پر تھے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہوا؟ 5ہزار لوگ زخمی ہوۓ ہیں۔ اور 160 کے قریب لوگ مارے گیے ہیں۔ بندر گاہ بالکل تباہ ہو گئی ہے۔ لبنا ن کی حکومت نے بیرو ت دھماکوں کا سبب Ammonium Nitrate بتایا ہے۔ جو 2013 سے بیرو ت بندر گاہ کے قریب Warehouse میں رکھا ہوا تھا۔ بندر گاہ کی انتظامیہ اور اعلی کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد بار حکومت کو بندر گاہ کے قریب گودام میں Ammonium Nitrate کے ذخیرے کے بارے میں بتایا اور اسے یہاں سے لے جانے کی درخواستیں بھی کی تھیں۔ لیکن حکومت نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا تھا۔ لیکن یہ لبنا ن حکومت کی غیر ذمہ دارا نہ حرکت تھی کہ اس نے ایک انتہائی خطرناک مواد کے ذخیرے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ Saad Hariri [2009-20018] اس عرصہ میں لبنا ن کے وزیر اعظم تھے۔ اور انہوں نے اس سے غفلت کیوں برتی تھی؟ لبنا ن کے عوام کو انہیں اس کا جواب دینا ہو گا؟ جس کی بہت بھاری قیمت اب لبنا ن  کے لو گ دے رہے ہیں۔ قابل تسلی بات یہ ہے کہ اس خطرناک مواد  پر حزب اللہ کے کوئی Finger Print نہیں تھے۔ بندر گاہ اور کسٹم کے اعلی حکام مسلسل حکومت کو اس خطرناک مواد کے بارے میں آگاہ کر رہے تھے۔ اور حکومت نے کچھ نہیں کیا تھا۔

 لیکن لبنا ن کے ہمسایہ میں اسرائیلی حکومت کے Imagination میں Ammonium Nitrate حزب اللہ تھی۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو حزب اللہ کو ایک خطرناک مواد سمجھتے تھے۔ اور لبنا ن کی سیاست سے اس خطرناک مواد کو ہٹانے کی اپیلیں کرتی تھی۔ سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ شامل ہو گیا تھا۔ اور سعودی حکومت نے اسلامی دنیا میں سب سے پہلے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ اسرائیل نے لبنا ن پر سب سے زیادہ بمباری کی تھی اور سعودی حکومت نے اس اسرائیلی جارحیت کی کبھی مذمت نہیں کی تھی۔ گزشتہ سال سیکریٹری آف اسٹیٹ Mike Pompeo کے اسرائیل کے دورے میں وزیر اعظم نتھن یا ہو نے ان سے لبنا ن میں حزب اللہ کا مکمل خاتمہ کرنے پر زور دیا تھا۔ وزیر اعظم نے سیکرٹیری آف اسٹیٹ کو بتایا کہ حزب اللہ کے ذریعہ لبنا ن پر ایران کا کنٹرول ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر کو یہ بتا رہے تھے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ بھی امریکہ کے اتنے Top Naive Diplomate تھے کہ وہ حزب اللہ کے بارے میں وزیر اعظم نتھن یا ہو کی Briefing کے ساتھ بیرو ت آۓ اور لبنا ن کے صدر Michel Aoun سے کہا کہ وہ حزب اللہ کو حکومت سے نکال دیں۔ حزب اللہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ یہ ایسے تھا کہ جیسے چین کے وزیر خارجہ پریذیڈنٹ ٹرمپ سے سیکرٹیری آف اسٹیٹ کو اپنی انتظامیہ سے نکالنے کے لیے کہتے۔ صدر Michel Aoun کو سیکرٹیری آف اسٹیٹ سے یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی تھی۔ لبنا ن ایک Sovereign ملک تھا۔ اور یہ ان کا داخلی معاملہ تھا۔ صدر Michel Aoun نے سیکرٹیری آف اسٹیٹ کو بتایا کہ 'حزب اللہ کو لبنا ن کے  60% لوگوں نے ووٹ دئیے ہیں۔ اور انہیں منتخب کیا ہے۔ وہ حکومت کا ایک اہم حصہ ہے۔ حزب اللہ کو حکومت سے علیحدہ کرنے سے لبنا ن میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گا۔' سیکرٹیری آف اسٹیٹ نے یہ ہی بات لبنا ن کے وزیر اعظم سے ملاقات میں کی تھی۔ لبنا ن میں سیکرٹیری آف اسٹیٹ اسرائیل اور سعودی عرب کا نمائندہ بن کر آۓ تھے۔ اگر وہ ہانگ کانگ میں ہوتے تو یہ کہتے کہ چین کے مخالفین کو 60% لوگوں نے  ووٹ دئیے ہیں اور انہیں حکومت سے نہیں نکلا جاۓ۔  دنیا میں یہ امریکہ کا Typical role ہے۔

 خانہ جنگی کے بعد لبنا ن میں ایک سیاسی نظام قائم کیا گیا تھا۔ جس میں تمام مذہبی فرقوں کو حکومت میں نمائندگی دی گئی تھی۔ Christian, Sunni, Shia حکومت میں تھے۔ پارلیمنٹ میں تھے۔ عوام کی منتخب حکومت اور پارلیمنٹ تھی۔ حزب اللہ نے اپنے آپ کو کبھی حکومت پر مسلط نہیں کیا تھا۔ صرف عوام حزب اللہ کو منتخب کرتے تھے۔ اور پھر عیسائی، سنی اور شیعہ صلاح مشورے سے و زا راتیں لیتے تھے۔ اس نظام نے لبنا ن کو سیاسی استحکام دیا تھا۔ حالانکہ کے ایک عرصہ تک لبنا ن میں شام بھی ملوث تھا۔ ایران بھی تھا۔ لیکن انہوں نے لبنا ن میں سیاسی انتشار نہیں پھیلایا تھا۔ لبنا ن کے معاشی اور سیاسی استحکام کو اہمیت دی تھی۔ ان کی مدد سے لبنا ن بڑی تیزی سے خانہ جنگی کے ملبہ سے نکل آیا تھا۔ لبنا ن میں ایک جمہوری Set up بھی فروغ کر رہا تھا۔ عرب دنیا میں لبنا ن پہلا اور واحد ملک تھا جس نے اسرائیل کے قبضے سے اپنا وادی بکا کا علاقہ آزاد کرایا تھا۔ اور اسرائیل کو شکست دی تھی۔ اور اس اسرائیلی شکست کا Credit حزب اللہ ملیشیا کو دیا جاتا ہے۔ اور اس وقت سے لبنا ن کے عوام اپنی سلامتی میں حزب اللہ کو فر نٹ لائن defense سمجھتے ہیں۔ اسرائیل سب سے زیادہ بمباری لبنا ن پر کرتا ہے۔ 2006 میں اسرائیل نے لبنا ن پر حملہ کیا تھا۔ سینکڑوں لبنا نی اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہوۓ تھے۔ املاک تباہ ہو گئی تھیں۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہو گیے تھے۔ حزب اللہ اور لبنا نی فوج نے مل کر ملک کا  دفاع کیا تھا۔

  اسرائیل- سعودی اتحاد نے مصر میں جمہوریت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ امریکہ نے یہاں اپنی جمہوری قدروں کا دفاع نہیں کیا تھا۔ بلکہ اسرائیل- سعودی قدروں سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ امریکہ خود اپنی جمہوری، اخلاقی اور قانون کی بالا دستی کی قدروں سے مخلص نہیں ہے۔ ورنہ مصر میں جمہوریت بچانے میں Blunt اقدام ضرور کرتا۔ شام کے خلاف امریکہ سعودی، اسرائیل اور خلیج کے ملکوں کے اتحاد کا لیڈر بن گیا تھا۔ اس اتحاد نے د مشق حکومت کے خلاف 80s میں افغان جہاد کی طرز پر جہادیوں کو جمع کیا تھا۔ انہیں تربیت اور ہتھیار دئیے تھے۔ اور اس اتحاد نے جہادیوں کے ذریعے شام کو Destabilize کر دیا اور پھر اسے کھنڈرات بنا دیا تھا۔ ترکی کی سرحدوں پر دہشت گردوں سے جنگ ہو رہی تھی۔ عراق میں ISIS سے جنگ ہو رہی تھی۔ اسرائیل کے کہنے پر پریذیڈنٹ ٹرمپ نے ایران پر سخت بندشیں لگا دی تھیں۔ سعودی ولی عہد شہزاد محمد نے لبنا ن کے وزیر اعظم Saad Hariri کو سعودی عرب آنے کی دعوت دی اور جب وہ سعودی عرب آۓ تو ولی عہد شہزادہ محمد نے انہیں نظر بند کر دیا اور وزیر اعظم سے اپنے Billion واپس کرنے کے لیے کہا۔ فرانس اور بعض دوسرے ملکوں کی کوششوں کے نتیجے میں وزیر اعظم کو رہا کر دیا۔ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے اتحاد کے Adventurism نے لبنا ن کو پہلے اقتصادی اور پھر سیاسی Destabilize کر دیا تھا۔ لبنا ن کی شام سے تجارت ختم ہو گئی تھی۔ لبنا ن کی عراق سے تجارت ختم ہو گئی تھی۔ لبنا ن کی ایران سے تجارت بند ہو گئی تھی۔ کیونکہ پریذیڈنٹ ٹرمپ نے ایران پر سخت بندشیں لگا دی تھیں۔ لبنا ن کی ترکی کے ساتھ تجارت بند ہو گئی تھی کیونکہ ترکی کی سرحدوں کے قریب دہشت گردوں کے حملے ہو رہے تھے۔ لبنا ن کی معیشت پر ارد گرد کے حالات کے تباہ کن اثرات ہو ۓ تھے۔ اور ان کی معیشت گر گئی۔ اور اب امریکہ اور یورپ کے اخبارات اور Media دنیا کو یہ بتا رہے ہیں کے لبنا ن میں Elite Leaders Corrupt ہیں۔ مڈل ایسٹ میں ہر طرف اور ہر ملک میں Leaders Elite  ہیں۔ اور یہ سب امریکہ کے  قریبی اتحادی ہیں۔ سعودی اور اسرائیلی لیڈر کیا Corrupt نہیں ہیں؟ امریکہ میں کیا Political Corruption نہیں ہے؟ سعودی شاہ نے ملیشیا کے وزیر اعظم Najib Razak کے Bank account میں $600million جمع کراۓ تھے۔ یہ ملیشیا میں ایک سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش تھی۔ اٹا رنی جنرل نے اس کی تحقیقات کی تھی۔ اور وزیر اعظم کو اب کرپشن کے الزام میں 7سال کی سزا سنائی گئی ہے۔

 جس طرح سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo بیرو ت گیے تھے۔ لبنا ن کے صدر سے حزب اللہ کو حکومت سے نکالنے اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا کہا تھا۔ جس سے لبنا ن میں ایک نئی سیاسی بحث شروع ہو گئی تھی۔ لبنا ن میں ایک نیا سیاسی بحران پیدا ہو گیا تھا۔ بالکل ایک ایسی ہی صورت 70s میں پاکستان میں پیدا ہوئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے۔ اور بلوچستان میں پشتونوں اور بلوچوں کی مخلوط حکومت تھی۔ اور پختون خواہ صوبے میں بھی ان کی حکومت تھی۔ پاکستان کو سی آئی اے کی یہ رپورٹ دی گئی کہ بلوچستان میں سو ویت یونین کا اثر و رخ بڑھ رہا تھا۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ساتھ سو ویت یونین کے رابطے بڑھ رہے تھے۔ بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن بھی ان رابطوں میں شامل تھی۔ وزیر اعظم بھٹو نے اپنی ایجنسیوں کو اس کی تحقیقات کرنے کا کہا تھا۔ اسی دوران پھر شاہ ایران نے بھی وزیر اعظم بھٹو کو اپنی خفیہ ایجنسی کی رپورٹ دی کہ بلوچستان میں سو ویت یونین کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ سو ویت یونین خلیج کے گرم پانی تک پہنچنا چاہتا تھا۔ شاہ ایران کو اس خطہ میں امریکہ کا پولیس مین کہا جاتا تھا۔ مختصر یہ کہ وزیر اعظم بھٹو نے بلوچستان اور سرحد میں ان کی حکومتیں ختم کر دیں اور بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بلوچستان اور سرحد میں جمہوری سیاست جس استحکام کو فروغ دے رہی تھی۔ وہ درہم برہم ہو گیا۔ اور اس کے بعد جو کچھ ہوا تھا وہ پاکستان کی بد قسمت تاریخ تھی۔ اب اس صورت حال میں لبنا ن کو رکھا جاۓ کہ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo بیرو ت گیے اور لبنا ن کے صدر اور وزیر اعظم سے کہتے ہیں کہ حزب اللہ کو حکومت سے نکلا جاۓ۔ یہ دہشت گرد تنظیم ہے۔ اور [شاہ ایران کی جگہ] سعودی شاہ حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ دنیا کو بتایا جاتا ہے کہ لبنا ن میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کو یہ پسند نہیں تھا کہ لبنا ن میں Christian, Shia, Sunni مل کر جمہوری عمل کو کیسے کامیاب بنا رہے تھے؟ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo کو صرف Hong Kong میں جمہوریت ختم ہونے کی پریشانی ہے۔               

    

No comments:

Post a Comment