Thursday, September 24, 2020

If His Name Was Mohammed Netanyahu And He Was Indicted in His Country on Criminal Fraud Charges, President, America Never Stands Proudly Next to Him, But Because His Name Is Benjamin Netanyahu That’s Making a Big Difference

 

If His Name Was Mohammed Netanyahu And He Was Indicted in His Country on Criminal Fraud Charges, President, America Never Stands Proudly Next to Him, But Because His Name Is Benjamin Netanyahu That’s Making a Big Difference

 

The world loves to do business with him. Two former Secretary of States had said “BB Netanyahu is a liar” and no doubt about it, he is a certified liar and master of manipulating, he signed several agreements with Palestinians but never followed through, he hates Palestinians from the bottom of his heart. Is America negotiate somebody who hates America's bottom of his heart?

مجیب خان

  Bahrain Foreign Minister Abdullatif al -Zanani, Prime Minister Benjamin Netanyahu, President Donald Trump, UAE Foreign Minister Abdullah bin Zayed al-Nahyan

 




  متحدہ عرب امارات اور بحرین کی حکومتوں کی دو خاتون ترجمان امریکی نیوز چینلز پر اپنی حکومتوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے فیصلے کی وضاحت کرنے آئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے خطہ میں امن کا فروغ ہو گا۔ اقتصادی ترقی میں مدد ملے گی۔ ہمیں اب 21ویں صدی کو اقتصادی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی میں آ گے بڑھنا ہے۔ یہ خطہ کئی دہائیوں سے جنگوں میں ہے۔ اور یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔" انہوں نے کہا "مڈل ایسٹ کو فلسطین تنازعہ کا برسوں قیدی بنا کر نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ اور فلسطینیوں کو بھی اب اس پر غور کرنا چاہیے۔ تاہم ایک آزاد فلسطینی ریاست کی ہم حمایت کرتے ہیں۔ ہماری حکومت نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں شرط رکھ ہے کہ اسرائیل نئی یہودی بستیاں تعمیر نہیں کرے گا۔" امیر بحرین حما د نے کہا ہے کہ " ہم عرب امن Initiative کے تحت ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام، جس کا دارا لحکو مت مشرقی یروشلم ہو گا۔ فلسطین تنازعہ پر ہماری پوزیشن بہت پختہ ہے۔ اور بحرین دو ریاست حل کا پابند ہے۔ ہمارا امن اور خوشحالی کی طرف اقدام سب کے مفاد میں ہے۔" متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بادشاہ اور شہزادے جن خوبصورت لفظوں میں عرب عوام کو سہا نے خواب دیکھا رہے ہیں۔ حقائق اس کے برعکس نظر آ رہے ہیں۔ اسلامی دنیا، عرب لیگ، عرب لیڈر، عرب بادشاہ، عرب شہزادے، 1948 سے فلسطینیوں کو آزاد ریاست دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن ان کا مطالبہ ابھی تک مطالبہ ہے۔ جنہوں نے مملکت اسرائیل بنائی تھی۔ انہیں اسی وقت فلسطینی ریاست بھی تسلیم کرنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ ان کا Evilness تھا کہ وہ دنیا کے لیے فلسطین کو تنازعہ بنا کر گیے تھے۔ ان کے بعد جو لیڈر آۓ تھے وہ بھی نسل در نسل کے لیے فلسطین تنازعہ  چھوڑ کر  گیے ہیں ۔ اگر 70سال سے فلسطینیوں کو انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ تو یہ اس کا ثبوت ہے کہ مغرب کی انسانی حقوق کی قدریں Fake ہیں۔ اور مقبوضہ فلسطین میں انسانی Miseries کا انہیں کوئی احساس نہیں ہے۔

 صرف 20سال میں عرب کمزور ہو گیے ہیں اور اسرائیل نے King David کی طاقت بحال کر لی ہے۔ عرب اسرائیل کے آ گے ہتھیار ڈالے کھڑے ہیں۔ اور فلسطینی Victim بھی ہیں اور Accused بھی ہیں۔ عرب حکم رانوں کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اسرائیل سے اپنے مطالبے تسلیم کروانے کے بجاۓ وہ فلسطینیوں سے اسرائیل کے مطالبے تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ صرف اس میں ان کے لیے فلاح و بہبود ہے۔ ہمیں اب مل کر مڈل ایسٹ کو 21ویں صدی کا ایک نیا ترقی یافتہ اور خوشحال مڈل ایسٹ بنانا ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پہلے ہی بڑے دو ٹوک لفظوں میں یہ کہہ چکے ہیں کہ فلسطینیوں کو جو کچھ دیا جا رہا ہے وہ قبول کر لیں۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ کے داماد اور عرب اسرائیل تنازعہ کا  حل دریافت کرنے کے لیے پریذیڈنٹ ٹرمپ کے ایڈوائزر Jarred Kushner نے اپنے مڈل ایسٹ امن منصوبے پر جسے فلسطینیوں نے مسترد کر دیا ہے، ان سے کہا “You take it or Leave it” یعنی ایک طرف فلسطینیوں پر اسرائیلی فوجی تسلط ہے اور دوسری طرف ان پر ایک نام نہاد امن منصوبہ مسلط کیا جا رہا ہے جس میں ان کے لیے صرف اسرائیل کی Hegemony قبول کرنا ہے۔ عرب حکمران اپنی تاریخ کے اس وقت انتہائی غیر یقینی، غیر مستحکم اور کمزور صورت حال میں ہیں۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ سعود یوں کو یہ پیغام بھی دے چکے ہیں کہ امریکہ کے بغیر وہ ایک ہفتہ سے زیادہ نہیں رہ سکتے ہیں۔ اور ان کا یہ پیغام   بحرین، کویت، ا و مان قطر، متحدہ عرب امارات  کے لیے بھی تھا۔

  امریکہ نے سرد جنگ میں نہ صرف عرب حکم رانوں بلکہ اسلامی ملکوں کو اپنے مفاد میں استعمال کیا تھا۔ انہیں اپنا قریبی اتحادی کہا تھا۔ عرب اتحادیوں نے اپنے Petro Dollar سے ایشیا افریقہ اور لا طین امریکہ میں بائیں بازو کے خلاف امریکہ کی جنگیں Finance کی تھیں۔ اسلامی ملکوں نے افغانستان میں سو ویت فوجوں کے خلاف لڑنے کے لیے اپنے نوجوانوں کو بھیجا تھا۔ جو کمیونسٹ فوجوں سے لڑے تھے۔ انہیں شکست دی تھی۔ اور امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور بنایا تھا۔ امریکہ نے اپنے عرب اور اسلامی اتحادیوں کو یقین دلایا تھا کہ سرد جنگ ختم ہونے کے عرب اسرائیل تنازعہ حل کیا جاۓ گا۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد George H Bush پہلے پریذیڈنٹ تھے۔ انہوں نے دنیا میں مستقبل کی گرم جنگوں کی بنیاد رکھ دی تھی۔ مڈل ایسٹ میں صد ام حسین کو اسرائیل اپنی سلامتی کا سب سے بڑا دشمن سمجھتا تھا۔ اور پریذیڈنٹ George H Bush نے اسرائیل کے اس دشمن کو خصوصی اہمیت دی تھی۔ اور اس دشمن کو راستے سے ہٹانے کی جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔ عراق پر انسانی تاریخ کی انتہائی خوفناک اقتصادی بندشیں لگا کر صد ام حسین کو با کس میں بند کر دیا تھا۔ پریذیڈنٹ بش (41 ) انتظامیہ کے آخری دنوں میں فلسطینیوں اور اسرائیل میں Madrid Pact ہوا تھا۔ جس پر اسرائیل نے یہ قسم کھا کر دستخط کیے تھے کہ وہ اسے جلد Kill کر دیں گے۔ پریذیڈنٹ بش (41 ) کی انتظامیہ میں فلسطین -اسرائیل تنازعہ کے حل میں صرف اتنی پیشقدمی ہوئی تھی۔ پریذیڈنٹ Bill Clinton انتظامیہ میں فلسطینیوں اور اسرائیل میں Oslo Pact ہوا تھا۔ اور ابتدا میں یہ بہت کامیاب سمجھوتہ نظر آ رہا تھا۔ فلسطینی اس معاہدے میں اپنا ایک روشن مستقبل دیکھ رہے تھے۔ اور اس سمجھوتے سے بہت خوش بھی تھے۔ دنیا کو بھی یہ یقین ہو رہا تھا کہ فلسطین- اسرائیل تنازعہ اب حل ہونے کے قریب ہے۔ PLO نے اسرائیل کا وجود تسلیم کر لیا تھا۔ اور اپنے چارٹر سے اسرائیل کا وجود ختم کرنے کی شق نکال دی تھی۔ اسرائیل کی لیبر پارٹی نے بھی فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام قبول کر لیا تھا۔ اور مغربی کنارے اور غازہ سے اسرائیلی فوجیں نکال لی تھیں۔ اور فلسطینیوں کو مغربی کنارے اور غازہ میں اپنی عبوری حکومت قائم کرنے کے اختیارات دے دئیے تھے۔ یہ تنازعہ کے حل میں پہلا اور آخری ایک Genuine, sincere action تھا۔ لیبر پارٹی کی قیادت اور فلسطینی قیادت اس مسئلہ کو حل کرنے میں بہت Serious تھے۔ پریذیڈنٹ Bill Clinton نے تنازعہ کی دونوں پارٹیوں کو قریب لانے میں بہترین کردار ادا کیا تھا۔ دنیا کا کوئی لیڈر کبھی اتنی مرتبہ وائٹ ہاؤس نہیں آیا تھا کہ جتنی مرتبہ PLO کے چیرمین Yasser Arafat وائٹ ہاؤس آتے تھے۔ اس خطہ میں ایک نئی تاریخ بننے کا آغاز ہو رہا تھا۔ لیکن Likud Party کے Ariel Sharon, Benjamin Netanyahu and war mongers  نئی تاریخ بننے کا پہیہ موڑ کر 5ہزار سال کی تاریخ میں لے گیے تھے۔ جب King David اپنے ہر مخالف کو مار دیتا تھا۔ اور اس کے مقابلے پر جو بھی آنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس پر حملے کرتا تھا۔ Benjamin Netanyahu کا 20سال دور اقتدار King David کے دور کی تاریخ ہے۔ اسرائیل کے Behalf پر امریکہ نے مڈل ایسٹ میں ہر اس عرب لیڈر کو مار دیا ہے۔ جو طاقتور سمجھا جاتا تھا۔ اور عرب دنیا میں جو کمزور ہیں۔ اسرائیل انہیں اپنے حلقہ اثر میں لا رہا ہے۔

 پریذیڈنٹ George W. Bush  نے عربوں اور اسلامی لیڈروں کو یہ یقین دلایا تھا کہ صد ام حسین عرب اسرائیل تنازعہ کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ اور صد ام حسین کا مسئلہ حل کرنے کے بعد امریکہ عرب اسرائیل تنازعہ حل کرے گا۔ عرب حکم رانوں نے صد ام حسین کا مسئلہ حل کرنے میں بش انتظامیہ کی مدد کی تھی۔ لیکن بش انتظامیہ دراصل اسرائیل کی توسیع پسندی کا راستہ بنانے میں مدد کر رہی تھی۔ اسرائیل کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں تعمیر کرنے کا موقع دیا تھا۔ Sharon-Netanyahu حکومت نے چیرمین یا سر عرفات سے یہ کہہ کر مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ یا سر عرفات عالمی دہشت گرد ہیں۔ اور ان سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ فلسطینی ایک نئی قیادت لائیں۔ بش انتظامیہ نے سابق Clinton انتظامیہ کے Peace Process کو آ گے بڑھانے کے بجاۓ Sharon-Netanyahu کی فلسطینیوں کے خلاف پالیسیوں کی حمایت کرنا شروع کر دی تھی۔ چیرمین یا سر عرفات  پر وائٹ ہاؤس کے دروازے بند کر دئیے تھے۔ یا سر عرفات کی وفات  کے بعد مقبوضہ فلسطین میں انتخاب ہوۓ تھے۔ سابق صدر جمی کار ٹر کی قیادت میں وفد نے مقبوضہ فلسطین میں صاف ستھر ے انتخاب ہونے کی تصدیق کی تھی۔ حما س  بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی۔ PLO نے محمود عباس کو نیا لیڈر منتخب کیا تھا۔ اس انتخاب سے فلسطینی غازہ اور مغربی کنارے میں تقسیم ہو گیے تھے۔ حما س نے غازہ میں اپنی حکومت بنا لی تھی۔ اور مغربی کنارے میں PLO کی حکومت تھی۔ امریکہ اور یورپ نے یہ دیکھ کر مغربی کنارے میں محمود عباس کی قیادت کو تسلیم کر لیا تھا۔ اسرائیلی حکومت نے اب یہ سوال کر دیا کہ فلسطینی دو گروپوں میں تقسیم ہیں۔ اور کس گروپ سے بات کی جاۓ؟ اس سوال پر امریکہ پھر اسرائیل کے ساتھ تھا۔ اس سے قبل وزیر اعظم Benjamin Netanyahu یہ کہتے تھے کہ عرب دنیا میں جمہوری حکومتیں نہیں ہیں۔ جن سے مذاکرات کیے جائیں۔ ڈکٹیٹروں کی حکومتوں سے امن مذاکرات نہیں ہو سکتے ہیں۔ امریکہ نے وزیر اعظم Benjamin Netanyahu کے اس موقف سے بھی اتفاق کیا تھا۔ اور اب Benjamin Netanyahu کی عرب ڈکٹیٹروں سے تعلقات قائم کرنے کی بھی امریکہ حمایت کرتا ہے۔ عرب حکمران امریکہ اور Benjamin Netanyahu کی انگلیوں پر ڈانس کر رہے ہیں۔ عرب عوام کو Side line   پر کھڑا کر دیا ہے۔ 20سال میں امریکہ کی مڈل ایسٹ پالیسی نے آدھی عرب دنیا میں حکم رانوں کو کمزور کر دیا ہے اور باقی آدھی عرب دنیا کو جنگوں اور خانہ جنگوں سے تباہ کر دیا ہے۔ اسرائیل کے لیے عرب دنیا میں ہر طرف Green Light ہے۔ عرب عوام کے لیے نہ تو ان کی حکومتوں کی پالیسیوں کے اچھے نتائج ہیں۔ اور نہ ہی ان کی حکومتوں کے امریکہ کا قریبی اتحادی بن کر رہنے کے کوئی اچھے نتائج ہیں۔                 

No comments:

Post a Comment