On the Eve of the 19th Anniversary of 9/11, Arab Rulers, One by One, are Falling into Israel’s Fruit Basket Like Mangos
Every Saudi Arabian King was against
the Zionist occupation of Arab land, Now Zionists want Arab Kings and Princes
in their wallet. This is nonsense that the Iran threat brought Arab rulers closer
to Israel. If not Iraq, then Iran is a threat due to this bull shit American
policy, Arab sand is socked in blood.
America doesn’t need Arabs
because America has become number one in oil and gas production in the world,
and Israel doesn’t need America because Israel has been self-sufficient in
high-tech technology and high-class military weapons production. Israel is also
exporting gas, technologies,
and weapons.
مجیب خان
President Donald Trump with Prime Minister Benjamin Netanyahu, Bahrain Foreign Minister Khalid bin Ahmed Al-Khalifa and UAE Foreign Minister Abdullah bin Zayed al-Nahyan |
پہلے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے
ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد بحرین نے بھی اب
اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پریذیڈنٹ ٹرمپ نے کہا
کہ اس وقت چھ سات اور عرب ملک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی لائن میں کھڑے
ہیں۔ اور وہ بھی بہت جلد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیں گے۔ اس تیزی
سے عرب حکمران جب اسرائیل کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں تو اسرائیل کو عربوں سے
مذاکرات کرنے اور انہیں ‘land
for Peace’ کی پیشکش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عرب حکمران اسرائیل سے نہیں، ایک
Zionist Regime کو تسلیم کر
رہے ہیں اور اس کے ساتھ تعلقات فروغ دے رہے ہیں۔ 70 سال سعودی عرب کے ہر بادشاہ نے
Zionism کی ہر محاذ پر مخالفت کی تھی۔ اور
Saudi Kingdom اب اسرائیلی Zionists کے آ گے جھک گئی ہے۔ اسرائیلی Zionists کی یہ کامیابی جیسے Trillion Dollar Lottery نکل آئی ہے۔ 9/11 کے 19سال بعد اسرائیلی Zionists کی کامیابیاں اب
سامنے آ رہی ہیں۔ صد ام حسین کا خاتمہ ہو گیا۔ عراق تباہ کر دیا۔ معمر قد ا فی کا
خاتمہ کر دیا۔ لیبیا بھی تباہ ہو گیا ہے۔ اور شاید یہ کبھی دوبارہ ایک ملک نہیں بن
سکے گا۔ شام کو کھنڈرات بنا دیا ہے۔ Benjamin Netanyahu نے کہا ہے کہ شام کو دوبارہ تعمیر کرنے میں 100
سال لگیں گے۔ لبنا ن بھی تباہ کر دیا ہے۔ اور لبنا ن مڈل ایسٹ کا Paris اب شاید کبھی نہیں بن سکے گا۔
ایران کو امریکہ نے تاریخ کی انتہائی ظالم بندشوں سے تباہ کر دیا ہے۔ جو عرب ملک Brotherhood کو وجود میں لاۓ تھے۔ اور سرد جنگ
میں اسے قوم پرست اور ترقی پسند حکومتوں کے خلاف دہشت گردی کرنے کے لیے استعمال کرتے
تھے۔ ان عرب ملکوں نے اسے اب دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ اور امریکہ کی بندشیں
ان کے لیے اب گو تانا مو بے ہیں۔ اور ان کی زندگیوں میں انہیں اب شاید Prosperity کبھی نصیب نہیں ہو گی؟ Hamas بھی ان ہی عرب حکومتوں نے بنائی
تھی۔ اسرائیلی Zionists نے Oslo Pact کی مخالفت کی تھی۔ جس کو ساری دنیا نے ایک
تاریخی معاہدہ کہا تھا۔ اور ساری دنیا اس معاہدے کے پیچھے اسے کامیاب بنانے کے لیے
کھڑی تھی۔ اسرائیلی وزیر اعظم Yitzhak Rabin اور PLO کے چیرمین یا سر
عرفات نے معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ پریذیڈنٹ بل کلنٹن نے اس معاہدہ کو کامیاب بنانے
کی ضمانت میں دستخط کیے تھے۔ عرب حکومتوں نے اسرائیلی Zionist کی اس طرح مدد کی کہ حما س بنا دی۔ اور فلسطینیوں کو تقسیم کر
دیا۔ حما س بھی Brotherhood کی ایک شاخ
تھی۔ اور اب اسے بھی اسرائیل کے کہنے پر سعودی عرب نے دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا
ہے۔ امریکہ نے سعودی بادشاہ کے فرمان کی مکمل تائید کی ہے۔
متحدہ عرب امارات، بحرین، ا و مان،
سعودی عرب اور اسرائیل پریذیڈنٹ ا و با مہ کی قیادت میں شام کو تباہ کرنے کی جنگ
میں اتحادی تھے۔ عراق میں صد ام حسین کے خلاف اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب
امارات، بحرین، کویت ان سب میں یہ اتفاق تھا کہ صد ام حسین اس خطہ کے لیے ایک بڑا
خطرہ ہیں۔ اور انہوں نے پریذیڈنٹ بش سے تعاون کیا تھا۔ لیبیا میں معمر قد ا فی کے
خلاف بھی سعودی عرب، اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین پریذیڈنٹ ا و با مہ کے ساتھ
کھڑے تھے۔ ایران کے مسئلہ پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اسرائیل کے موقف سے
مکمل اتفاق کرتے ہیں۔ عرب اسلامی دنیا میں شیعہ سنی تقسیم اسرائیلی Zionist اسکیم ہے۔ جو اسرائیل کے لیے بہت
کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ اسرائیل نے اس سے زبردست فائدہ اٹھایا ہے۔ اسلام کو دو گرہوں
میں تقسیم کر دیا ہے۔ اور اسلامی ملکوں میں 100سال کی لڑائی پیدا کر دی ہے۔ عرب
حکمران انتہائی Idiots ہیں۔ اللہ نے
انہیں دولت دے کر ان سے عقل لے لی ہے۔ اس لیے انہیں اتنی عقل نہیں ہے کہ شیعہ ہر
عرب ملک میں ہیں۔ اور صدیوں سے ان کے شہری ہیں۔ عرب حکم رانوں نے اپنے ملکوں میں،
اپنے خطے میں، دنیا ۓ اسلام میں شیعہ سنی نفرت پھیلانے میں اسرائیلی Zionists سے تعاون کیا ہے۔ ترکی ایک سنی
ملک سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین نے صرف اس لیے تعلقات خراب ہیں کہ ترکی
نے اسرائیل کے خلاف حما س کی حمایت کی تھی۔ دوسرے سلطنت عثمانیہ میں ترکی نے عربوں
کو مارا تھا۔
خلیج کے حکم ران کھربوں ڈالر
ہتھیاروں پر خرچ کرتے ہیں۔ لیکن امریکہ میں Middle East Experts کا یہ کہنا ہے کہ عرب حکمران
ایران سے خوفزدہ ہیں اور یہ اسرائیل سے تعلقات قائم کر رہے ہیں۔ ار دن کے شاہ
عبداللہ نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ 'امریکن سمجھتے ہیں کہ وہ مڈل ایسٹ کے بارے
میں سب جانتے ہیں۔ لیکن وہ کچھ نہیں جانتے ہیں۔' حقیقت یہ ہے کہ پہلی عراق جنگ کے
بعد President George H. Bush نے عراق میں شیعاؤں سے یہ اپیلیں
کی تھیں کہ وہ صد ام حسین کا تختہ الٹ دیں۔ اس وقت عراق پر جو بندشیں تجویز کی گئی
تھیں۔ اس میں شیعہ اکثریتی علاقوں کو No flight Zone سے Exempt رکھا تھا۔ لیکن
ایران نے President Bush کی
ان اپیلوں کو اپنے مفاد میں Exploit نہیں کیا تھا۔ اور عراق میں شیعاؤں کو صد ام حسین
کے خلاف نہیں اکسایا تھا۔ حالانکہ اس وقت عراقی شیعاؤں کی ایک بڑی تعداد نے ایران
عراق جنگ کے دوران ایران میں پناہ لے لی تھی۔ ایران نے انہیں بھی صد ام حسین کے
خلاف استعمال نہیں کیا تھا۔ یہ مڈل ایسٹ میں ایران کا کردار تھا۔ لیکن Pro- Israeli American Media عرب حکم رانوں
کو گمراہ کرتا ہے۔ اور انہیں حقائق نہیں بتاتا ہے۔ مڈل ایسٹ میں جتنا جھوٹ بولا
جاتا ہے۔ شاید دنیا کے کسی خطہ میں ایسا جھوٹ نہیں بولا جاتا ہو گا؟ شام میں دنیا
دیکھ رہی تھی کہ عرب حکم ران پریذیڈنٹ ا و با مہ کی
بغلوں میں کھڑے تھے۔ اور پریذیڈنٹ ا و با مہ کے ساتھ “Assad has to go” کر رہے تھے۔ شام کو Destabilize کر رہے تھے۔ لیکن سعودی عرب اور اسرائیل یہ پراپگنڈہ کر رہے ہیں
کہ ایران نے شام کو Destabilize کیا
ہے۔ اور مڈل ایسٹ میں دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کر رہا ہے۔ سعودی عرب اسلامی دنیا
میں اپنی Credibility کھو چکا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے جس دن اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسی روز اسرائیل نے شام پر بمباری کر کے برادر عرب ہلاک کر دئیے تھے۔ شام بھی
متحدہ عرب امارات کی طرح ایک Sovereign ملک ہے۔ اور
اسے بھی ایران کے ساتھ تعلقات رکھنے کا حق ہے۔ اسرائیل کو کیوں اتنی تکلیف ہے کہ
یہ روزانہ شام پر بمباری کرتا ہے۔
پریذیڈنٹ ٹرمپ نے متعدد بار یہ واضح کر
دیا ہے کہ مڈل ایسٹ کے تیل اور گیس پر امریکہ کا انحصار اب ختم ہو گیا ہے۔ امریکہ دنیا
میں آئل اور گیس میں اب پہلے نمبر پر ہے۔ امریکہ کو مڈل ایسٹ کی اب ضرورت نہیں ہے۔
اور اسرائیل کا بھی امریکہ پر انحصار ختم ہو گیا ہے۔ اسرائیل گیس فروخت کرنے عالمی
مارکیٹ میں آ گیا ہے۔ اسرائیل نے مصر سے 100بلین ڈالر کا 10سال کا معاہدہ کیا ہے۔
اسرائیل ار دن کو گیس فراہم کر رہا ہے۔ اسرائیل نے حال ہی میں یونان سے گیس فراہم
کرنے کا سمجھوتہ کیا ہے۔ اسرائیل کی ٹیکنالوجی اور فوجی ہتھیاروں کی صنعت بھی بہت Advance ہے۔ ٹیکنالوجی میں اسرائیل چین سے
سمجھوتے اور تعاون کر رہا ہے۔ امریکہ اس سے خوش نہیں ہے۔ اس طرح اسرائیل مڈل ایسٹ
اور ایشیا کی مارکیٹ میں اپنا مقام بنا رہا ہے۔ 20سال کی افغان اور عراق جنگوں نے
امریکہ کو 23ٹیریلین ڈالر کا مقروض کر دیا ہے۔ امریکہ کا Infrastructure تباہ ہے۔ امریکہ کے ایرپورٹ آثار
قدیمہ نظر آتے ہیں۔ غربت بڑھتی جا رہی ہے۔ صحت عامہ کا نظام بہت خراب ہے۔ اس کا
اندازہ Coronavirus میں صحت عامہ
کی کارکردگی سے لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن اسرائیل 70سال سے جنگیں لڑ رہا ہے۔ اس نے
70سال میں شاندار صنعتی ترقی کی ہے۔ نئی یہودی بستیاں تعمیر کی ہیں۔ اس کا بہترین Infrastructure ہے۔ اسرائیل دنیا
میں شاید کسی کا مقروض بھی نہیں ہے۔ اور اس سے متاثر ہو کر دولت مند عرب اپنی
ترقیاتی غربت ختم کرنے کے لیے اسرائیل کی Fruit Basket میں One by one گر رہے ہیں۔ صد ام حسین اور عرب
ملکوں کی تباہی کے بعد اسرائیل کے لئے یہ ایک بہترین فصل کی طرح ہیں۔ جسے دیکھ کر
وزیر اعظم Benjamin Netanyahu نے
کہا ہے کہ 'اسرائیل کے لیے یہ بہترین موقع ہیں۔' اسرائیل کو عربوں کی ایک انچ زمین
سے بھی پیچھے نہیں ہٹنا پڑا ہے۔ بیت المقدس اسرائیل کا ہے۔ West Bank and Gaza اسرائیل کے Guantanamo Bay’ ‘ ہیں۔ عرب حکم رانوں نے اسرائیل کے آ گے اپنے کپڑے اتار دئیے ہیں۔
دنیا ۓ اسلام کو تذلیل کرنے کا انہیں یہ بہترین موقع نظر آ یا تھا۔
مصر اور ار دن کے اسرائیل کے ساتھ
سمجھوتوں کا متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ سمجھوتوں کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ اسرائیل نے
ان ملکوں سے جنگ کی ہے اور نہ ہی ان کی زمین پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ انہوں نے
اسرائیل کے ساتھ مل کر مڈل ایسٹ میں سازشیں کی ہیں۔ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ کو
مستحکم بنایا ہے۔ ان کا یہ کردار اب کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ یہ اسرائیل کے اب Defense Criminal Attorney' بن گیے ہیں۔ صدر انور السادات نے
اسرائیل سے امن سمجھوتہ کرنے سے پہلے اپنا سینا ئی کا علاقہ واپس لیا تھا۔ اسرائیل
نے سینا ئی میں بھی یہودی بستیاں بنا لی تھیں۔ اسرائیل نے یہ بستیاں Dismantle کی تھیں۔ پھر مصر- اسرائیل کیمپ ڈ
یوڈ معاہدے میں یہ شرط رکھی تھی کہ اسرائیل کو ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے
لیے PLO سے فوری مذاکرات کرنا ہوں گے۔ اور
اگر اسرائیل نے اس معاہدہ پر عملدرامد نہیں کیا تو مصر یہ معاہدہ ختم کر دے گا۔
جنہوں نے انور السادات کو قتل کیا تھا۔ وہ Brotherhood کے لوگ تھے۔ جنہیں سعودی سپورٹ حاصل تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ مصر میں
پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مر سی کو اقتدار سے ہٹانے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ
صدر مر سی نے کیمپ ڈ یوڈ معاہدے پر عملدرامد کرنے کی بات کی تھی۔ ورنہ اس معاہدے کو
ختم کرنے کا کہا تھا۔ سعودی عرب نے اس پر اسرائیل کی مدد سے محمد مر سی حکومت کا تختہ
الٹ دیا۔ اور امریکہ کی انسانی حقوق، آزادی اور جمہوری قدروں کو مصر میں دفن کر
دیا۔
Prime Minister Yitzhak Rabin اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ جنہوں
نے فلسطینیوں کی Suffering کا اعتراف کیا
تھا۔ اور فلسطینیوں کو آزاد ریاست دینے کے لیے Oslo Pact کیا تھا۔ جس میں فلسطینیوں کی ایک
آزاد ریاست کا قیام تسلیم کیا تھا۔ اور This is only one Historical Pact that sign by Prime Minister Yitzhak Rabin
and Chairman Yasser Arafat وزیر اعظم Rabin کا فلسطین کا تنازعہ حل کرنے میں سنجیدگی اور مخلص کو دیکھ کر ار
دن کے شاہ حسین نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن
اسرائیلی Zionists نے
وزیر اعظم Rabin کو
قتل کر دیا۔ اور Oslo
Pact ختم کر دیا۔ فلسطین پر دوبارہ فوجی قبضہ کر لیا۔ یا سر عرفات کو رمالہ میں نظر
بند کر کے مار دیا۔ مڈل ایسٹ میں اب جو بھی اسرائیل سے مزاحمت کرتا ہے۔ امریکہ اسے
دہشت گرد قرار دے دیتا ہے۔ غیر عرب اسلامی ملکوں کو اب فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا
ہونا ہو گا۔ Palestinians
are the victim of a brutal Israeli aggressions ان پر 70سال سے صرف
ظلم ہو رہا ہے۔ انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا ہے۔ امریکہ اور یورپ کا
ضمیر یہاں مر دہ ہو جاتا ہے۔ غیر عرب اسلامی ملکوں کو امریکہ اور یورپ پر ایک Fallen Israeli Prime Minister نے فلسطینیوں
کے ساتھ جس سمجھوتے پر دستخط کیے تھے اسے بحال کرانے اور اس پر عملدرامد کرانے کے
لیے بھر پور دباؤ ڈالنا چاہیے۔ وزیر اعظم Yitzhak Rabin نے امن اور عظیم تر انسانیت کی بقا میں اپنی جان دی ہے۔ اور ان کی
اس قربانی کا احترام Oslo Pact کو بحال کر کے
اور اس پر عملدرامد سے کیا جاۓ۔
No comments:
Post a Comment