World Affairs and President Trump, Something Good, Something Not Good, But Overall Better Than the Previous Two Administrations, First Time America Has No New Enemy and No New War
Mujeeb Khan
Friends, not Allies:
The era of allies has been over, in an economically global world, friends are
trading partners, trading partners have a common business interest, while
allies served the interest-only of the war power. President Trump is least interested
in allies and more interested in friends and trading partners. Businessmen and consumers
do not like war, tension, and disturbance, they like peace among the
international community.
Nothing wrong if
President Trump several times a day, tweets and tell the people and the world at
large on any issue and about the issue, his views. This is the best way to
inform and communicate with the people and the world. Very transparent, and
people also aware of the President’s ideas. Perhaps the President does not need hostile
media.
Joe Biden is
beating the coronavirus day and night. As if the people have no other
problems. The American people have forgotten, what change are they talking
about in the What House? Biden was in the What House four years ago for eight
years. Perhaps Joe Biden has no good performance in the government of running for
office, a coronavirus to get President Trump out of the White House is a gift
from God to Joe Biden.
If Joe Biden elected President, one thing is certain, Crown Prince Mohammed bin Salman will not be King of Saudi Arabia, and perhaps, Saudi Arabia will have to face President Carter’s era.
امریکہ کی تاریخ میں یہ پہلے صدارتی
انتخابات ہیں۔ جس میں خارجہ پالیسی کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے
کہ Obama-Biden administration میں خارجہ
پالیسی کی کوئی نمایاں کامیابی نہیں تھی۔ شام، لیبیا، یمن میں انسانی تباہیاں، مصر
میں جمہوریت کا خاتمہ مڈل ایسٹ میں روسی فوجوں کی آمد Obama-Biden خارجہ پالیسی کے Debacles ہیں۔ جس میں Joe Biden ایک انتہائی کمزور اور ناکام نظر
آتے ہیں۔ اس لیے Press and
Establishment انتخابی مہم کو خارجہ پالیسی بحث سے دور رکھ رہے
ہیں۔ یا پریذیڈنٹ ٹرمپ نے عالمی امور میں امریکہ کے نئے تعلقات کے بارے میں جو
پالیسی اختیار کی ہے اس پر معمولی اختلاف کے ساتھ ڈیمو کریٹس اور Joe Biden بھی اتفاق کرتے ہیں۔ چین کے ساتھ
پریذیڈنٹ Trump نے جس Trade war کا آغاز کیا ہے۔ Joe Biden نے پریذیڈنٹ منتخب ہونے کے بعد
اسے جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ تاہم چین سے Fair Trade پر مذاکرات کرنے کی بات کی ہے۔
ایران کے سلسلے میں Joe Biden نے
کہا ہے کہ وہ Obama
administration نے یورپی ملکوں کے ساتھ ایران سے ایٹمی پروگرام پر جو معاہدہ کیا ہے۔ وہ
اسے بحال کر دیں گے۔ لیکن ایران کے ساتھ علاقائی امور اور بعض دوسرے معاملات پر
مذاکرات کریں گے۔ اس وقت تک ایران پر کچھ اقتصادی بندشیں بر قرار رہیں گی۔
پریذیڈنٹ Trump کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ Isolationist, Nationalist, Protectionist ہے۔ اور اس پر
تنقید ہوتی تھی۔ لیکن انتخابی مہم کے دوران اور Presidential debate میں اس پر کوئی سوال
کیا گیا تھا۔ اور نہ ہی Joe Biden کے لیے یہ اہم ایشو
تھا۔ ‘Our
Allies’ کی بھی بہت بات کی جاتی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ میں ہمارے Allies بھی ہمارا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ یہ
تاثر غلط ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی وجہ سے امریکہ کا ساتھ نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ بلکہ
20سال سے امریکہ کی جنگوں میں Allies بن کر وہ محسوس کر رہے ہیں کہ جیسے وہ Ditch میں جا رہے ہیں۔ امریکہ
خود مقروض ہو رہا ہے۔ اور Allies کو بھی مقروض کر رہا ہے۔ جنگوں میں شکست ہو گئی ہے۔ مڈل ایسٹ
کھنڈرات بنا دیا ہے۔ شام اور لیبیا نے پریذیڈنٹ بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں
امریکہ سے تعاون کیا تھا۔ امریکہ کی مدد کی تھی۔ لیکن Obama-Biden administration نے لیبیا اور شام میں حکومت کے
خلاف دہشت گردوں کی مدد کی تھی۔ ایک ملین لوگ ہلاک ہوۓ تھے۔ شام اور لیبیا کو دیکھنے
کے بعد کون Allies بنا
پسند کرے گا۔ Allies کا امریکہ کے
بہت سے ایکشن اور پالیسیوں پر Clash بش اور اوبامہ انتظامیہ میں آغاز ہو چکا تھا۔ اور اب یہ کھل کر
سامنے آ گیے ہیں۔ افغانستان عراق شام اور لیبیا کے مسئلہ پر NATO Allies میں اختلاف تھے۔ Allies values economic interest more than
military interests. پریذیڈنٹ Trump بھی اب NATO کو اتنی اہمیت نہیں دیتے ہیں اور Economic interest فروغ دینے کی بات کرتے ہیں۔ پریذیڈنٹ
Trump امریکہ کو فوجی مہم
جوئیوں سے نکال کر Economic
competitor میں آ گے لانا چاہتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم
کے بعد جو نظام اور ادارے وجود میں آۓ تھے۔ وہ 75 سال بعد اب Obsolete ہو گیے ہیں۔ اور ان کی جگہ یا تو نئے ادارے وجود میں لائیں یا پھر
موجودہ اداروں میں اصلاحات کی جائیں اور انہیں نئی دنیا کے تقاضوں کے مطابق فعال بنایا جاۓ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو ادارے
اور نظام بنایا گیا تھا۔ وہ توسیع پسند اور سامراجی دنیا کے مفادات کی تکمیل کرتے
تھے۔ ایشیا افریقہ اور لا طین امریکہ کے ملکوں کے لیے اس میں کوئی مقام نہیں تھا۔ ان
کے قدرتی وسائل کا استحصال کیا جاتا تھا۔ جس طرح آج امریکہ اور دوسرے صنعتی ممالک
چین سے Fair Trade کی بات کرتے
ہیں۔ اس وقت قدرتی وسائل فراہم کرنے والے ملک اپنے Raw Materials کی Fair Price مانگتے تھے۔ بہرحال یہ ممالک چین
کی مدد سے اب Equal Trading
Partners Group میں آ گیے ہیں۔ G-7 کی بجاۓ G-20 آ گیا ہے۔
ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں نئے بڑے اقتصادی ملک ابھر رہے ہیں۔ امریکہ کا
Strategic Compitator صرف چین نہیں
ہے۔ چین کے علاوہ ویت نام، جنوبی کوریا، اور بہت جلد شمالی کوریا، برا ز یل، چلی،
ار جنٹا ئن، میکسیکو، کولمبیا، ونزویلا [پابندیاں ہٹنے کے بعد] جنوبی افریقہ،
نائجیریا، ایتھوپیا، مصر، انگولا، Botswana ملائشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ فلپا ئن ان ملکوں میں جتنی تیزی
کے ساتھ Economic Development ہو گا۔ عالمی اقتصادی
نظام میں اتنی ہی تیزی سے انقلابی تبدیلیاں آئیں گی۔ گزشتہ 25-30 سالوں میں ان ملکوں کی اقتصادی ترقی میں چین کا ایک بہت بڑا Contribution ہے۔ 25-30 سالوں میں امریکہ کا اپنی معیشت پیچھے لے جانے اور دوسرے ملکوں کو
جنگوں کے ذریعہ کھنڈرات بنانے میں ایک بڑا Contribution ہے۔ یہ امریکہ کی 25-30 سالوں کی
پالیسیوں کے Results ہمیں بتا رہے
ہیں۔ اور Joe Biden ان پالیسیوں کا
حصہ تھے۔ اور وہ بھی ان پالیسیوں کا حصہ تھے۔
جو آج Joe Biden کے
پیچھے کھڑے ہیں۔
2017 میں President Trump نے حلف لینے کی تقریب سے خطاب میں
کہا تھا کہ "امریکہ اب کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔
علاقائی تنازعہ علاقائی ملکوں کو خود حل کرنا چاہیے۔ امریکہ اس میں ملوث نہیں ہو
گا۔ انہیں علاقائی امن اور استحکام کے لیے اقدام خود کرنا ہوں گے ۔ امریکہ دنیا کا پولیس مین نہیں بنے گا۔ امریکہ دوسروں کی جنگیں
لڑنے کے لیے اپنے فوجی نہیں بھجے گا۔ President Trump has done what he said four years ago.
No comments:
Post a Comment