Democracy in a Christian Country, Brazil, and
an Islamic Country, Pakistan
Mujeeb Khan
Brazil's most popular President Lula da Sliva |
Pakistan's most popular leader Imran Khan |
پاکستان
اور برازیل کا جمہوریت کی جد و جہد کا پس منظر تقریبا” یکساں ہے۔ دونوں سردجنگ میں
امریکہ کی مسلط فوجی آمریتوں کے ستم زدہ ہیں۔ لیکن فرق صرف یہ ہے کہ پاکستان
می سیاسی لیڈروں کی پرورش فوجی حکومتوں نے کی ہے۔ اور برازیل میں فوجی حکومت
اور امریکی امپیریل ازم کے خلاف جد وجہد نے لیڈر پیدا کیے ہیں۔ سرد جنگ کے بعد
برازیل میں جوتوں پر پالش کرنے والا Lula da Silva ایک
مقبول لیڈر برازیل کا صدر منتخب ہوجاتا ہے۔ صدر Lula کی
اقتدار کے اختتام پر 80 فیصد مقبولیت تھی۔ پاکستان میں جنرل ضیاالحق نے جن کی
پرورش کی تھی اور جو شگر ملوں کے مالک تھے وہ سردجنگ ختم ہونے کے بعد اقتدار پر
چھا گیے تھے۔ پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کا ایک میکسچر تھا۔ صدر Lula نے
برازیل کے اقتصادی حالات بڑی تیزی سے بہتر بناۓ تھے اور برازیل G-20
میں آگیا تھا۔ جبکہ پاکستا ن میں لیڈروں نے اپنے اقتصادی حالات کو
قومی اقتصادی حالات پر فوقیت دی تھی۔ پاکستان کو انہوں نے donor ملکوں کے کلب میں رکھا تھا۔ اور اپنے آپ کو یہ دنیا کے دولت
مند لوگوں میں شامل کرنے لگے تھے۔ Lula 2018 سے
2019 میٖں کرپشن کے الزام میں 380 دن جیل میں تھے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں
نے ایک condo لیا تھا اور اس کی renovations کنسٹریکشن کمپنیوں سے حکومت کی کنٹریکٹ قیمت پر کرآئی تھی۔ ان
سزاؤں کے بعد سپریم کورٹ کے جج نے یہ کہہ کر سزاؤں کو پھینک دیا کہ Mr. Lula کے کیس میں جج biased
تھا۔ Lula نے انتخاب لڑا اور
بھاری اکثریت سے کامیاب ہوۓ تھے۔ لیڈروں کے اس رویہ اور عدالت کے کردار سے جمہوریت
کامیاب ہوتی ہے اور ملک آگے بڑھتا ہے۔ پاکستان میں 2007 میں لیڈروں کے پاکستان کی
عدالتوں میں کرپشن کے کیسزز صدر جارج بش نے پھینک دئیے تھے ۔ اور صدر مشرف سےان
لیڈروں کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دینے کا کہا تھا۔ اقتدار میں آنے کی اجازت
ملنے پر ان کی اوقات دیکھو یہ ایسے آۓ تھے جسے مرغے Cage سے
باہر آتے ہیں۔ Cage سے نکلنے کے بعد تین
مرتبہ مرغے اپنے پروں کو پھیلاتے ہیں۔ بے نظیر پہلا ٹارگٹ تھیں تین چار گولیاں لگی
اور وہ ختم ہوگئی ۔ صدر بش نے پاکستان کو جو جمہوری set up دیا تھا اس میں فوج سے کہا گیا تھا کہ وہ دہشت گردوں سے لڑے گی۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے کہا گیا تھا وہ حکومت کریں گے ۔ آپس میں نہیں لڑیں
گے ۔ soft اپوزیشن کریں گے۔ اور
حکومت میں آنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کریں گے۔ اور یہ بش جمہوری infrastructure تھا جس میں پاکستان کو fit کیا
گیا تھا۔ ان لیڈروں کے کرپشن کے کیسزز ختم کرنے کی قیمت پاکستان کے عوام نے دہشت
گردی کی لڑائی میں 100 بلین ڈالر کا قومی خزانہ کا نقصان اور 80 ہزار بے گناہ
شہریوں کی ہلاکتوں میں دیا تھا۔ ان بغیرتوں نے دہشت گردی ختم کرنے میں کوئی سیاسی
کردار ادا نہیں کیا تھا۔ ایک اقتدار میں بیٹھا رہا اور دوسرا قومی اسمبلی کی لابی
میں بیٹھا اقتدار میں آنے کا انتظار کرتا رہا ۔ زرداری بدمعاش نے قومی خزانہ کا
100بلین ڈالر کا نقصان کرایا تھا۔ لیکن پاکستان کی معیشت کو 100 بلین ڈالر نہیں
بنایا تھا۔ نواز شریف کی حکومت نے اس 100 بلین ڈالر نقصان کو book میں
کس طرح دکھایا تھا۔ جو انہیں زرداری حکومت نے دیا تھا۔ ن لیگی اور پیپلز پارٹی
لوگوں کو بیوقوف بنانے کے ماہر ہیں۔ 2017 اور اس سے پہلے پاکستان کی معیشت کیونکہ
امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن پر تھا اور امریکہ
کی امداد آرہی تھی۔ افغانستان میں نیٹو آپریشن میں پاکستان راہداری کی صورت میں
سروس دینے کا معاوضہ لے رہا تھا۔اس لیے معیشت بہتر تھی۔ زرداری ۔گیلانی
حکومت میں دہشت گرد بھی پاکستان کو تباہ کر رہے تھے اور حکومت صنعت کاروں سے
اپنا سرمایہ بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ملائشیا لے جانے کا کہہ رہی تھی۔ زرداری اور
نواز شریف حکومت میں کوئی بھی پاکستان میں سرمایہ لگا نا نہیں چاہتا تھا۔ یہ
Common sense ہے جب لٹیرے اور
چور اقتدار میں ہوں گے۔ ملک کبھی ترقی نہیں کرتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے 30 سال
اس کے ثبوت ہیں۔ 3o سال بعد پاکستان کے آخراجات کی ادا گیوں کے لیے اتنے ریونیو
نہیں ہیں۔ پاکستان مال گاڑی کی طر ح کھڑا ہے۔ ن لیگی اسے اچھی معیشت کہتے ہیں۔
2018 میں انتخابات کے نتائج دیکھ کر پیپلز پارٹی اور
ن لیگ کو حیرت ہوئی تھی ۔ جارج بش نے دونوں پارٹیوں کو حکومت کرنے کا جو جمہوری
set up دیا تھا۔ اور جس پر
اتفاق ہوا تھا نتائج اس کے بالکل بر خلاف تھے۔ عمران خان تیسری پارٹی بن کر ابھرے
تھے۔ بلاول زرداری کو اس پر سخت تکلیف ہوٰئی تھی ۔ اور وہ مینڈک کی طرح اچھل رہے
تھے کہ سیلکٹیڈ منظور نہیں ہے۔ کیونکہ اگر عمران خان نہیں ہوتے تو بلاول وزیرآعظم
ہوتا۔ ٹرمپ انتظامیہ میں انہیں کامیابی نہیں ہوسکتی تھی۔ لیکن
جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد آصف زرداری نے اپنے پرانے کنکشن
استعمال کیے تھے ۔ 10 اپریل 2022 سے قبل بلاول زرداری نے ایک ماہ نیویارک اور
واشنگٹن میں گزارا تھا۔ یہ سلیکٹیڈ کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہوگیے ۔ یہ
حکومت بنانے میں کامیاب ہوگیے۔ یہ اپنے کرپشن کے کیسزز ختم کرنے میں کامیاب ہوگیے
۔ اور اب؟ اور اب ان کے ساتھ وہ ہوا ہے جو صدام حسین کے ساتھ ہوا تھا۔ صدام حسین
نے صدر جارج ایچ بش سے پوچھا تھا کہ میں اپنی فوجیں کویت پر قبضہ کرنے بھیج رہا
ہوں امریکہ کا کیا ردعمل ہوگا؟ صدام حسین سے کہا گیا یہ عربوں کا داخلی معامعلہ
ہے ۔ اور امریکہ اس میں مداخلت نہیں کرے گا۔ امریکہ پاکستان کی داخلی سیاست
میں مداخلت نہیں کرے گا۔ حکومت میں شامل کرپٹ لوگوں نے اپنے کرپشن کیسزز قانون میں
تبدیلیاں کرکے خود ختم کر لیے ہیں۔ معیشت کا بیڑا غرق ہو گیا ہے۔ عوام مسائل کے
سیلاب میں ڈوبے ہوۓ ہیں جو سندھ میٖں سیلاب سے مختلف نہیں ہے۔ ن لیگی اب دیوار سے
لگ گیے ہیں۔ اور کہتے ہیں “ ہم پھنس گیے ہیں” بائیڈن انٹظا میہ کہتی ہے ہم
نہیں بچائیں گے یعنی ہم مداخلت نہیں کریں گے۔ سیاست میں ان کا مستقبل Bleak ہو گیا ہے۔
سرد جنگ کے بعد سے برازیل میں جمہوری عمل
ایک تسلسل ہے۔ اسٹبلیشمنٹ اور فوج کا سیاسی جماعتوں کی سیاست میں کوئی عمل دخل
نہیں ہے۔ Bolsonaro far
right
سیاست میں یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے اقتدار کی معیاد مکمل کرلی ہے ۔ الیکشن ہو گیے
بائیں بازو کے Lula
da Silva
بھاری اکثریت سے کامیاب ہوۓ ہیں۔ Lula نے
کہا وہ افلاس اور جنگلات ختم کرنے کے خلاف لڑیں گے۔ معیشت فروغ دیں گے۔ اور
قوم کو متحد کرنے کی کوشش کریں گے۔ ڈکٹیٹر شپ اب کبھی نہیں ، ہمیشہ
جمہوریت۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ فوج کی مدد سے
سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے ایک منتخب آئینی حکومت کا تختہ الٹا ہے اور اقتدار پر
قبضہ کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جنرل ضیاالحق کی آمریت میں جنرلوں کے ساتھ
کام کیا ہے۔اور ان کا mind
set ہے۔
اپنے مخالفین کا خاتمہ کرو۔ ان کے خلاف مقدمے بناؤ۔ انہیں جیلوں میں ڈالو۔
میڈیا پر بندشیں لگاؤ اور پھر حکومت کرتے رہو۔ شہباز شریف یہ عمران خان کے
خلاف کر رہا ہے۔ اس کے بڑے بھائی نے یہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا تھا۔ اس کو بدنام
کیا تھا۔ اس کو راستے سے ہٹانے کے لیے نواز شریف پاکستان میں طالبان کا نظام لا
رہا تھا کہ اسلام میں عورت اسلامی مملکت کی سربراہ نہیں ہوسکتی ہے۔ان لوگوں
نے بے بنظیر کو بھی اسی طرح اقتدار سے ہٹایا تھا جیسے عمران خان کے خلاف سازش کی
تھی اور اس کی حکومت ختم کی تھی۔ پنجاب میں صوبائی الیکشن ہارنے کے باوجود اب
پنجاب میں حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ جمہوری سیاست ان کی ذہنیت میں نہیں ہے۔
یہ فاشسٹ ہیں۔
|
ReplyForward |
No comments:
Post a Comment